ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری
یوں تو ہندستان میں پہلی صدی ہجری میں بعض صحابہؓ اور تابعینؒ کا آنا ثابت ہے۔ محمد بن قاسم کا سندھ میں آنا بہ کثرت تواریخ میں مذکور ہے، پھر بعد میں بھی تقریباً ہر صدی میں مسلمان آتے رہے ہیں اور اسلام کی دعوت عام کرتے رہے، ان ہی اللہ کے بندوں میں سے ایک سلطان الہند ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا بھی شمار ہوتا ہے کہ جنہوں نے بہت ہی کم وقت میں اپنے علم، عمل اور مخلوق خدا کے ذریعے غیر مسلموں کے دلوں میں گھر کرلیا۔ آپ کے کردار و تعلیمات سے لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ ہندوستان میں جوق در جوق غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق لاکھوں لوگ آپ کے ہاتھ پر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
غیرمسلم بھی آپؒ کی روحانی عظمت اور علمی مقام کے معترف ہیں
مولانا عبد الحلیم شررؔ نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا سلسلہ عقیدت و ارادت ساتویں درجے میں حضرت اسحاق شامیؒ چشتی تک پہنچتا ہے، جو گویا خاندان چشتیہ کے بانی اور اس متبرک و مقدس لقب کے موجد تھے۔ آپؒ پندرہ برس کے تھے کہ شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ اسی اثناء میں مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیؒ جو مجذوب بھی تھے کی توجہ سے طلب حق کا جذبہ پیدا ہوا۔ چناںچہ وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر تحصیل علم کے لئے سمرقند و بخارا،جو ان دنوں اسلامی علوم و فنون کے مرکز سمجھے جاتے تھے، کا سفر اختیار کیا، پہلے قرآن حکیم فرقان حمید حفظ کیا اور پھر علوم دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی۔
اس زمانے کے ممتاز علما سے کسب فیض کیا۔ سمر قند سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے اور نیشاپور کے قریب قصبہ ہارون یا ہرون میں مشہور بزرگ حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف بیعت حاصل کیا۔ سید محمد بن مبارک کرمانی سیرت الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ بیس سال تک آپ حضرت عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں سلوک و طریقت کی منازل طے کرتے رہے اور سفر و حضر میں ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔ بیس سال بعد حضرت خواجہ ہارونیؒ نے مکہ مکرمہ میں آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کی مقبولیت اور آپ کے حق میں خدا اور اس کے رسول ﷺکی بارگاہ میں دعا فرمائی۔
مدینۃ النبیﷺ کی حاضری میں حضور اقدس ﷺ نے آپ کو ہندوستان جانے کا حکم دیا اور بشارات سے نوازا، اس کے بعد آپ نے کسب روحانی کے لئے مختلف مقامات کا سفر کیا اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔شہنشاہِ بغدادشیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے جب اپنے عہدِ مبارک میں یہ اعلان فرمایا کہ ’’میرا قدم تمام ولیوں کی گردن پر ہے۔‘‘ تو اُس وقت حضرت خواجہ غریب نوازؒ خراسان میں عبادت وریاضت اور مجاہدہ میں مصروف عمل اور یادِ الٰہی کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔سرکار غوثِ اعظمؒ کایہ فرمان خواجہ غریب نوازؒ کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
583ھ میں روضہء رسولؐ اور خانہ کعبہ کی زیارت کی تڑپ لیے خواجہ معین الدین اجمیریؒ نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی معیت میں مکہ اور مدینہ شریف کا سفر اختیار فرمایا۔ حجِ بیت اللہ سے فارغ ہوکر مدینہ شریف میں درِ رسولﷺ پہ حاضری دی اور بصدادب واحترام حضورِ اقدسﷺ کی بارگاہِ مقدس میں سلام پیش کیا۔ ’’الصلوٰۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین وخاتم النبیین۔‘‘ روضۂ رسولﷺ سے آواز آئی’’وعلیکم السلام یا سلطان الہند۔‘‘
اسی رات رسولِ عربیﷺ نے آپؒ کوخواب میں اپنی زیارت سے سرفراز فرمایا اور برصغیر پاک وہند کی ولایت تفویض فرمائی اور حکم صادر فرمایا ’’جاؤ برصغیر پاک وہند میں دین اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دو۔‘‘ سو آپؒ نے اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ سے اجازت طلب کی اور ہندوستان کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے سر زمین ہندوستان پر پہلا قدم رکھتے ہی سب سے پہلے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ پُر انوار پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کی۔
پھر اِس کے بعد آپؒ نے شہرِ اولیاء ملتان شریف کا رخ کیا،کچھ عرصہ یہاں قیام فرماکر زبان پر عبورحاصل کیا اور اولیائے ملتان کے فیوض وبرکات اور روحانی دولت سے مالا مال ہوئے۔اس کے علاوہ دہلی اور اجمیر کے حالات وواقعات بارے میں معلومات حاصل کیں، تاکہ دین اسلام کی ترویج واشاعت اور تبلیغ کےلیے مستقبل میں کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ آپؒ نے اجمیر کو دین اسلام کی تبلیغ کا مرکز بنایا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے اس روحانی سلسلہ چشتیہ کو حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ،حضرت بابا فرید الدین گنجِ شکرؒ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ،حضرت خواجہ قبلۂ عالم نور محمد مہارویؒ اور حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ نے خوب بڑھایا۔ بلاشبہ، یہ سہرا انہی بزرگانِ دین ہی کے سر ہے کہ جنہوں نے محنت شاقہ اور اخلاص سے دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر پاک وہند کی فضاؤں میں’’صدائے عظیم‘‘گونج رہی ہے۔
آپ نے آخر وقت تک اجمیر ہی میں قیام فرمایا اور یوں تقریباً نصف صدی تک ارشاد و تلقین، اشاعت اسلام اور ہزاروں مریدین کی تعلیم و تربیت کرنے اور یاد حق میں سرگرمی سے مشغول رہنے کے بعدوصال فرمایا،داعی اجل کو لبیک کہا۔آپ نے سلطان التمش کے دور میں وصال فرمایا۔ سیر العارفین کے مصنف کا بیان ہے کہ وفات کے وقت سن شریف 97سال تھا۔ درج ذیل کتابیں آپ کی طرف منسوب ہیں۔(1)انیس الارواح۔(2)رسالہ ورکسب فیض۔(3)دلیل العارفین۔ان ملفوظات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ خواجہ صاحب کے نزدیک اہل سلوک کا ہر قسم کے صدری و معنوی اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے، کیونکہ آپ کے نزدیک تصوف نہ علم ہے، نہ رسم بلکہ مشائخ کا ایک خاص اخلاق ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے۔
آپ کے نزدیک اولین ضرورت شریعت کی ہے یعنی صدری حیثیت سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو،جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت سرزد نہ ہو گی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے اور جب اس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا اور جب اس میں بھی پورا اترے گا تو حقیقت کا درجہ پائے گا جس کے بعد اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگے گا، اسے ملے گا۔
سید محمد بن مبارک کرمانی اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ وفات کے بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒکی پیشانی مبارک پر یہ نقش ظاہر ہوا ’’حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘ (یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں فنا ہوگیا)کئی حکمرانوں نے آپ کے دربار میں حاضری کو دین اور دنیا کی سعادت جانتے ہوئے اپنے تعلق اور دلی عقیدت کا اظہار کیا۔ آپ کی تعلیمات کا فیضان آج تک جاری و ساری ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی در گاہ کی زیارت کے لئے زندگی کے ہر شعبے اور طبقہ فکر کے لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔
آپؒ کا سالانہ عرسِ پاک یکم رجب سے چھ رجب تک انتہائی شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ جس میں دنیا بھر سے لوگ عرس کی تقریبات میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور آپؒ کے آستانہء عالیہ پر مسلم ہندو، سکھ عیسائی تمام مذاہب کے لوگ عقیدت و احترام سے آتے ہیں اور وہاں سے فیض پاتے ہیں۔لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے 1902ء آپؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دینے کا شرف حاصل کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’میں نے ایک قبر کو ہندوستان میں حکومت کرتے دیکھا ہے۔‘‘