ہمارے عزیز یاسر پیر زادہ اچھا لکھتے ہیں ، اکثر نئے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مورخہ 15جنوری 2023کے اپنے کالم میں سوال اٹھایا ہے ”اسلامی معاشی نظام کے ماہرین کہاں ہیں؟“یہ سوال ان کے ذوق تجسس کی فراوانی کا عکاس ہے ۔وہ دراصل اسلامی معاشی نظام کے ماہرین سے ملنے اور ان کے خیالات جاننے کے خواہاں نہیں بلکہ ان کا کالم پڑھ کر سمجھ آتا ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی معاشی نظام کی موجودگی کے ہی منکر ہیں ،ان کے خیال میں اسلام میں سرے سے کوئی معاشی نظام موجود ہی نہیں اور اس عنوان کے تحت اسلام نے چند اخلاقی تعلیمات ضرور دی ہیں۔لیکن نہ کوئی نظام دیا ہے نہ اسلام کے پاس دور حاضر کے مسائل کا حل ہے ۔ان کا طرز استدلال اور نتائج نکالنے کی صلاحیت نہایت ”شاندار“ ہے۔ انہوں نے اپنے کالم کے ابتدائی حصہ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ”اسلام اور جدید معاشی نظریات “کے مطالعہ کا خلاصہ بیان کیا ہے ۔ان کے مطابق”اس کتاب میں مولانا نے مختلف معاشی نظاموں کا جائزہ لیا ہے ،ان کی خامیوں اور نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور پھر بتایا ہے کہ اسلامی معاشرے میں کس قسم کا معاشی نظام نافذ ہونا چاہئے،مولانا ؒ نے بتایا ہے کہ اسلام انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے اور یوں کمیونزم اور سوشل ازم وغیرہ اسلام کی روح کے خلاف ہیں ۔مولانا فرد کو زمین کی ملکیت کا حق دیتے ہیں ۔آزادانہ تجارت کی حمایت کرتے ہیں اور ذرائع پیداوار پر کسی گروہ یا فرد واحد کی اجارہ داری ختم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔مولانا مزدور کی بہترین اجرت طے کرنے،اوقات کار مقرر کرنے ،علاج اور پنشن کے معاملات اسلام کے عدل کے اصولوں کےتحت نافذ کرنے کے حامی ہیں۔ مولانا نے مالیات کے کچھ اصول لکھے ہیں اور بتایا ہے کہ ان معاشی معاملات میں حکومت کی مداخلت کس حد تک مناسب ہے۔‘‘ یہ وہ نچوڑ ہے جو یاسر پیر زادہ نے بیان کیا ہے ۔ان کی اس تحریر کو پڑھ کر ہر صاحب فہم و فراست ہی نہیں عام طالب علم بھی یہ تاثر لیتا ہے کہ1۔مولانا نے جدید معاشیات کے مفکرین کو اچھی طرح پڑھ رکھا ہے۔ 2۔انہوں نے مختلف معاشی نظاموں کا مطالعہ کیا ہے اور سرمایہ داری ،سوشلزم کمیونزم پر خالص علمی تنقید کی ہے ۔3۔وہ اگرچہ انفرادی ملکیت کو جائز سمجھتے ہیں لیکن ملکیت و معیشت کو حدود و قیود کا پابند بنانے کے بھی حامی ہیں۔4۔ذرائع پیداوار پر گروہ یا فرد واحد کی اجارہ داری کے مخالف ہیں ۔5۔مزدور کیلئے اجرت، اوقات کار ،علاج، پنشن کے بہترین پیکیج کے حامی ہیں۔یاسر پیر زادہ کی ”علمی دیانت “اور”صحافیانہ غیر جانبداری “کا کمال یہ ہے کہ وہ ان سارے تاثرات کو صرف ایک جملے میں اڑا دیتے ہیں کہ ”مولانا نے کوئی نئی ،اچھوتی یا آؤٹ آف باکس بات نہیں بتائی ،اور یہ محض اخلاقی تعلیمات ہیں “جہاں” میں نہ مانوں“کا طرز استدلال اس نوعیت کا ہو وہاں اسلام کے معاشی نظام کی پوری تفصیل ۔اس کی حکمت ،انسانیت پر احسانات،ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کی صلاحیت ،دور حاضر کے معاشی مسائل کے اسلامی حل وغیرہ پر دلائل کے انبار لگانا بھی لاحاصل ہے کہ اس کے بعد بھی وہ کسی طرح قائل نہ ہوسکنے کا اظہار کرسکتے ہیں ۔تاہم میں روزنامہ جنگ کے قارئین کے استفادہ کیلئے اسلامی معاشی نظام کے خدوخال بیان کررہا ہوں ۔ظاہر ہے کہ اس مختصر تحریر میں صرف نکات بیان کئے جاسکتے ہیںتفصیل نہیں۔٭ اسلام کا معاشی نظام اس کے مکمل ضابطہ حیات کا حصہ ہے اور اس کے بہترین نتائج کل کے نفاذ سے ملتے ہیں پیچ ورک یا جزو کے نفاذ سے نہیں ۔ ٭ مکمل ضابطہ حیات کی بنیادعقائد پر ہے ۔عقیدہ توحید ۔اللہ وحدہ لاشریک کی ذات اور صفات پر ایمان۔ وہ حی و قیوم ہے ۔سمیع و بصیر ہے ۔علیم بذات الصدور ہے ،خالق مالک اور رازق ہے اور اس کا اقتدار زمین و آسمان پر قائم ہے ۔وہ روز جزا کا مالک ہے۔ عقیدہ رسالت ۔نبی کریم حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاہیں ۔رحمت اللعالمین ہیں اور ان کا اسو ہ حسنہ کامل و اکمل ،اعلیٰ و ارفع نمونہ ہے ،عقیدہ آخرت ،موت کے بعد زندگی ،مال کمانے اور مال خرچ کرنے کا آخرت میں حساب دینا ہے۔ یہاں احتساب سے بچ بھی گئے تو وہاں نہیں بچ سکتے۔ حقوق و فرائض کا ایک مکمل نظام ہے ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد واضح ہیں۔ اسلام معاشی ظلم کے سارے راستے بند کرکے انسان کو اندر سے تبدیل کرتا ہے۔ انسان کے اندر ہی محتسب اعلیٰ بٹھا دیتا ہے اورمادیت پرستی اور خود غرضی کا طرز عمل ختم کرتا ہے۔ اسلام حرام رزق کے حصول پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔سود معیشت کوتباہ کردیتا ہے۔ ہمارے گزشتہ سال کے بجٹ کا 40فیصد حصہ یعنی 4ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کیلئے رکھا گیا تھا۔اسی طرح ذخیرہ اندوزی ۔ملاوٹ ۔شراب و منشیات کی آمدنی ۔جوا،سٹہ بازی ،لاٹری ،رشوت وغیرہ کی آمدنی حرام ہے۔ خرچ پر پابندیاں نمود و نمائش ،فضول خرچی،جائز مدات پر بھی حد سے زیادہ خرچ کرنے کی ممانعت ہے۔مال ضائع کرنے، اسراف، بے اعتدالی حرام اور ضرر رساں مدات پر خرچ وغیرہ ناجائز ہے۔ ٹیکس کا نام بدل کر زکوٰۃ نہیں رکھا گیا۔ زکوٰۃعبادت ہے ۔فرض ہے ۔دین کا اہم رکن ہے۔ کیپٹل پر ڈھائی فیصد زکوٰۃہے ۔کس پر فرض ہے ؟ اخراجات کی مدآت کیا ہیں ؟ سب کچھ واضح ہے۔ پاکستان میں اگر مکمل زکوٰۃوصول کی جائے تو یہ رقم کھربوں روپے میں بنتی ہے اور ٹیکس وصولی کی رقم سے کہیں بڑھ جاتی ہے ۔اسلام دولت کی گردش کا قائل ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم، تاکہ دولت تمہارے امیروں کے درمیان ہی نہ پھرتی رہے ۔یاسر پیر زادہ جس بینکنگ نظام سے متاثر ہیں اس کی حیثیت تو محض کمپیوٹر کے بے جان ہندسوں پرمشتمل ہے ۔ یہ معیشت ایسا غبارہ ہے جس میں ہر پل فرضی اور جھوٹے اعداد و شمار کی ہوا بھری جارہی ہے ۔یاسر پیر زادہ صاحب سے گزارش ہے کہ جلد بازی میں فیصلے کرنے سے پہلے مزید مطالعہ فرمائیں۔
(ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نائب امیر جماعت اسلامی ہیں)