سیاسی انتقام یا حقیقی واردات
اس وقت جب سیاست تہذیب کی پست ترین سطح پر ہے۔۔گالی شعور کا حصہ اور عارضی مقبولیت کا پہلا زینہ تسلیم کیا جا چکا ہے۔۔اور سیاستدان ہر وہ کام کرنے میں فخر محسوس کرتے جسے کبھی گمراہی سمجھا جاتا تھا۔۔اس وقت جب ملک سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہے، سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کےدو ذاتی ملازمین کو اسلام آباد سے شراب کی برانڈڈ بوتلیں لاہور لے جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔یہ خبر آتے ہی پہلا شبہ ذہن میں یہی آیا کہ سابق وزیر اعلی سیاسی انتقام کی جکڑ میں آ گئے ہیں۔۔اور انہیں ان کے گھر کے بھیدیوں کے ذریعے ایسے مقدمہ میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے جسے ثابت کرنا تو ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن ان کی سیاسی ساکھ کو کسی حد تک نقصان ضرور پہنچایا جا سکتا ہے۔۔لیکن انتہائی سرعت کے ساتھ کی جانے والی تفتیش جیسے جیسے آگے بڑھی اور منظر کھلنے لگا تو یہ بات دستاویزی شواہد کے ساتھ سامنے آئی کہ گرفتار کئے جانے والے چوہدری پرویز الٰہی کے دونوں ملازمین ۔۔محمد زمان ولد قربان حسین اور محمد اجمل ولد محمد یونس نے ۔۔مجسٹریٹ درجہ اول اسلام آباد کی عدالت میں 164ظ ف کے تحت بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ سابق وزیر اعلی پرویز الٰہی کے حکم پر ان کے لئے پنجاب ہاؤس اسلام آباد سے شراب لینے آئے تھے لیکن شمس گیٹ کے قریب پولیس ناکے پر پکڑے گئے۔۔
عدالت میں تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے مبینہ ذاتی محافظ (گن مین) محمد زمان ولد قربان حسین نے کہا "میں تقریبا" دس سالوں سے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے ساتھ گن مین ہوں۔ 26 جنوری 2023 کو تقریبا" 12 بجے دوپہر چوہدری صاحب نے مجھے لاہور والے گھر میں بلایا اور ایک شاپر (لفافہ) جس میں پیسے تھے، دیا اور ہدائت کی کہ اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس میں فہیم صاحب کو دینا ہے اور اس کے بدلے وہ جو بیگ دیں گے وہ واپس چوہدری صاحب کو پہنچانا ہے۔۔حسب ہدائت ہم فہیم کے پاس پہنچے اور رقم والا شاپر اس کے حوالے کیا اور اس بدلے بریف کیس لیا جس میں شراب کی تین بوتلیں تھیں جو چوہدری صاحب کو پہنچانی تھیں۔۔مجھے یہ پتہ ہے کہ فہیم چوہدری صاحب کا خاص آدمی ہے اور چوہدری صاحب نے ہی اسے پنجاب ہاؤس میں ملازمت دلائی تھی۔"
اسی الزام میں گرفتار کئے جانے والے دوسرے ملزم محمد اجمل ولد محمد یونس نے زیر دفعہ 164 ظ ف کے تحت اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا، "میں سابق وزیر اعلی پنجاب کے ساتھ گزشتہ 16 سال سے بطور ڈرائیور کام کر رہا ہوں۔۔چوہدری صاحب کے حکم پر 26 جنوری 2023 کو ان کے گن مین محمد زمان کے ہمراہ اسلام آباد پہنچا اور فہیم نامی شخص سے پنجاب ہاؤس میں ملاقات کی اور ہدائت کے مطابق شاپر فہیم کے حوالے کیا اور اس سے بریف کیس لے کر واپس روانہ ہو گئے۔۔راستے میں پولیس نے ناکے پر روک کر چیک کیا اور تین بوتلیں شراب بر آمد کر کے گرفتار کر لیا۔۔مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ فہیم چوہدری صاحب کا فرنٹ مین کے طور پر کام کرتا ہے اور ان کے پیسوں کے لین دین، مختلف 'پارٹیوں' کا اہتمام کرتا ہے۔۔اسی مقصد کے تحت اس پنجاب ہاؤس میں ملازمت دلائی تھی۔اسی طرح چوہدری پرویز الہی کی ایف ایٹ تھری اسلام آباد والے گھر میں ہونے والی 'پرائیویٹ' پارٹیوں کے اہتمام کرنے کی ذمہ داری پنجاب ہاؤس کے ملازمین عاصم چیمہ اور ارشاد اللہ کی ہوتی ہے۔۔لیکن میرا ان تمام باتوں سے کوئی تعلق نہیں۔۔مجھے اس کام کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ میرا شراب کی بوتلوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔" اگرچہ چوہدری صاحب کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس سے ان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔۔
گزشتہ ہفتہ کی ایک بڑی خبر فواد چوہدری کی گرفتاری ہے جنہیں الیکشن کمیشن کی درخواست پر اس کے حکام کے خلاف توہیں آمیز ذبان استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں عدالت میں پیش کرتے جو انداز اختیار کیا گیا اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کی تضحیک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔۔
یہ درست کہ اہل قلم نے یہ سوچے بغیر کہ فواد چوہدری اور شہباز گل کی جانب گزشتہ دور میں انتہائی درجے کی توہین اور بد زبانی کے باوجود ان کے خلاف موجودہ حکومت کی جانب سے روا رکھے گئے رویے پر بھر پور رد عمل ظاہر کیا۔۔ فواد چوہدری اور شہباز گل اس وقت کہاں تھے جب تحریک انصاف کے دور میں بزرگ سیاستدان، صحافی اور معلم عرفان صدیقی کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے آدھی رات کے وقت ان کے گھر سے اس الزام میں ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا تھا کہ ان کے بیٹے نے اپنے کرایہ دار کی رجسٹریشن نہیں کرائی تھی اور اس مکان سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔سب لوگ اس بات کے بھی گواہ ہیں "وقت کے فرعون" کے حکم پر عرفان صدیقی کو "دہشتگردی" کے "جرم" میں ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پولیس کی بکتر بند گاڑی میں عدالت میں پیش کیا اور ان کا ریمانڈ حاصل کیا گیا۔۔لیکن ان کو اپنے اعمال و اطوار پر شرم نہیں آتی۔۔