• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو معاشی میدان میں اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں ایک بڑا چیلنج نوجوانوں پر مشتمل آبادی کے بڑے حصے کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم کاسرمایہ ہوتی ہے اور اگر اس کیلئے آگے بڑھنے کے مناسب مواقع میسر نہ ہوں تو یہ سرمایہ کسی بھی ملک کے وسائل پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں جس طرح پاکستان کو برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں کمی کے باعث زرمبادلہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سے یہ بات مزید اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو متبادل اور بہتر روزگار کی فراہمی کیلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے جو کہ کورونا کی وبا کے دوران بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانی نوجوانوں کو جرمنی کے ادارے جی آئی زیڈ کے تعاون سے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کے بعد دوبارہ بیرون ملک بھیجنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہونے کی حیثیت سے گزشتہ دنوں مجھے خود بھی فیصل آباد میں ایسی ہی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس میں بیرون ملک سے بیروزگار ہو کر واپس آنے والے 25نوجوانوں کو چھ ماہ کا فری آٹوکیڈ کورس کروانے کے بعد سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کورس مکمل کرنے والے 16 نوجوانوں کو دوران کورس ہی نئی ملازمت بھی مل چکی ہے۔ اس طرح یہ نوجوان نہ صرف دوبارہ بیرون ملک جا کر اچھی ملازمت حاصل کر سکیں گے بلکہ اگر وہ پاکستان میں رہ کر بھی کام کرنا چاہیں تو عام لیبر کے مقابلے میں دو سے ڈھائی گنا زیادہ آمدنی حاصل کر سکیں گے۔

ٹیکنیکل ٹریننگ حاصل کر کے بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کے خواہشمند نوجوانوں کیلئے ایک اور اہم شعبہ حلال گوشت اور سلاٹر ہاوس کا کاروبار ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ میں حلال گوشت کی فراہمی کے سلسلے میں سلاٹر ہاوس کے کاروبار میں کام کرنے والے ہنرمند افراد کی شدید ضرورت ہے لیکن ہمارے ہاں اس شعبے کی تربیت فراہم کرنے کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے میں نے یورپ میں سلاٹر ہاوس کے کاروبار سے وابستہ پاکستانی نژاد اہم شخصیت نوید اقبال کی گزشتہ دنوں پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے چیئرمین میجر ریٹائرڈ شاہنواز بدر سے ملاقات بھی کروائی تھی تاکہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ٹیکنیکل ٹریننگ کا آغاز کر کے ہنرمند نوجوانوں کیلئے بیرون ملک ملازمت کے بہتر مواقع پیدا کئے جا سکیں۔ اس حوالے سے خوش آئندبات یہ ہے کہ جرمن اداے جی آئی زیڈ نے پی وی ٹی سی کو سلاٹر ہاوس میں کام کرنے والی افرادی قوت کی تربیت کیلئے پہلے ہی ایک لیب تیار کر کے دی ہوئی ہے جس میں کلاسز کا فوری آغاز ممکن ہے۔ اس طرح عالمی معیار کے مطابق سرٹیفکیشن کے تقاضے پورے کر کے پاکستان سے بیرون ملک گوشت کی برآمد بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

عالمی سطح پر ہنرمند افراد کیلئے دستیاب مواقع ہونے کے باوجود ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت بھی پاکستان میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے شعبے کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 30لاکھ سے زائد نوجوان جاب مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں جبکہ ملک بھر میں موجود 3500 کے قریب ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اور ٹریننگ کے اداروں کی استعداد سالانہ پانچ لاکھ افراد کو تربیت دینے تک محدود ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں دی جانے والی تعلیم اور تربیت کا معیار بھی مزید بہتر بنایا جائے۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور فرسٹریشن ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ نوجوان طبقے کو اچھا روزگار بھی میسر آئے گا۔ اس حوالے سے سفارتخانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملک کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت کی تیاری کیلئے مخصوص ٹریڈز کی نشاندہی کریں۔ اس طرح ملنے والی معلومات کو آگے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے والے اداروں سے شیئر کیا جائے تاکہ وہ انہی ٹریڈز میں نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرکے ملازمت کا حصول یقینی بنائیں۔ اس طرح نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کے ہنرمند افراد کی مانگ میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان کو زرمبادلہ کے حصول کا ایک بہتر متبادل بھی میسر آ جائے گا۔

اس حوالے سے پاکستان کو جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹیکنیکل اور ووکیشنل ایجوکیشن پر فوکس کر کے نہ صرف اپنے لوگوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اپنے اپنے ملک کو دوبارہ صف اول کا ترقی یافتہ ملک بنایا ۔ اس کیلئے پاکستان میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے اداروں کا بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے ہر حصے میں ایسے ادارے قائم کئے جا سکیں۔ اسی طرح ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں اور انڈسٹری کے مابین اشتراک ِکار کو بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سےنہ صرف پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ اس سے لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مختلف ٹیکنیکل شعبوں میں خدمات کی فراہمی کا معیار بھی بہتر ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین