2018 میں محلاتی سازشوں کے ذریعے عمران خان کو سیاسی میدان میں اُتارنے سے ریاست اور سیاست ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تباہ کن ’’ ٹیسٹ میچ‘‘ کا حصہ بن چکی ہیں، جہاں حالات لمحہ بہ لمحہ بد سے بد تر رُخ اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جاری طویل سیاسی کشمکش اور بے یقینی نے پاکستانی ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ یوں تو پاکستانی سیاست بوجوہ ہمیشہ سے ایک زہریلا کنواں ہی رہی ہے لیکن عمران خان کی آمد کے بعد اس زہریلے کنویں کا تعفن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب سانس لینابھی دشوار ہوگیا ہے۔ عمران خان نے سیاست میں جھوٹ ، الزام تراشی اور گالم گلوچ کو جس درجے تک پہنچا دیا ہے اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ عمران خان کے ناقدین جو انہیں ایک غیر سیاسی شخصیت ہونے کے حوالے سے ملکی سیاست میں غیر موزوں سمجھتے تھے وہ بھی ان کے بارے میں حُسنِ ظن ضرور رکھتے تھے کہ وہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اور جمہوریت کے گڑھ یعنی برطانیہ میں کئی سال گزارنے کے بعد پاکستانی سیاست میں تحمّل ، بردباری ، برداشت اور باہمی عزت و احترام کا کلچر تو ضرور متعارف کرائیں گے، جو ویسے بھی ایک ا سپورٹس مین کی پہچان ہوتا ہے لیکن انہیں یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ موصوف میںا سپورٹس مین سپرٹ کی کوئی علامت دور دور تک دکھائی نہ دی ۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جس قسم کا تضحیک آمیز لہجہ اپنایا ، انہیں جن ناموں سے پکار ا ، جس طرح ’’اوئے تجھے دیکھ لوں گا۔‘‘ ’’ اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا‘‘ جیسے الفاظ اپنی تقاریر میں استعمال کئے ۔ اُنہیں سن کر تو یوں لگا جیسے خان صاحب کا تعلیم و تربیت اور مہذّب معاشرے سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔ لیکن انہیں چوں کہ مقتدر حلقوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی اس لئے ان کی ہر خامی کو نظر انداز کر دیا گیا،ان کی شخصیت کا قد کاٹھ اس قدر بڑھایا گیاکہ ان کے اندر چھپی ہوئی تمام خامیاں خوبیاں بن کر باہر آنے لگیں۔ چاہے ان کے پلے بوائے کے قصّے ہوں یا ان کی کچھ نامناسب عادات ، ان سب سے قطع نظر ان کا ایک ایسا بت تراشا گیا جیسے وہ کوئی مسیحا اور نجات دہندہ ہوں، ان کی پرانی ذاتی زندگی بھی شاید صرف ِ نظر ہو جاتی مگر بعد میں ریحام خان سے لے کر نجانے کتنے نام ایسے سامنے آئے، جنہوں نے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس پر مستزادیہ کہ انہوں نے ’’ریاست ِ مدینہ ‘‘ کے قیام کا اعلان کرنا شروع کردیا اور خود کو اس خود ساختہ ریاست کا امیر قرار دے دیا۔ ان کے سیاسی علم کا یہ حال ہے کہ وہ بیک وقت چین کے سوشلزم ، ایران کے اسلامی انقلاب، برطانیہ اور مغرب کی جمہوریت اور سعودی عرب کے ولیٔ عہد اور وزیرِ اعظم محمد بن سلمان کے شاہی اختیارات کا کوئی ملغوبہ پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں حماقت اور خود اعتمادی کے درمیان ایک ہلکی سی لکیر ہوتی ہے۔ عمران کی خود اعتمادی اور عقلِ کل ہونے کا یہ حال ہے کہ کسی سے بھی مشاورت کرنے کو اپنی توہین خیال کرتے ہیں ، مغرب ، مشرق، جغرافیہ ، تاریخ، فلسفہ اور مذہب، غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر کامل عبور حاصل ہونے کا دعویٰ نہ ہو لیکن سال کے 12موسم اور جرمنی و جاپان کی سرحدیں پل بھر میںملا دیتے ہیں۔ بارہ لوگوں کی ٹیم کے کپتان ہونے کی وجہ سے یہ دعویٰ کہ ٹیم بنانے میں تو میرا کوئی ثانی نہیںایسی ٹیم بنائوں گا کہ 90دن کے اندر کرپشن کا نام و نشان نہیں رہے گا لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ایک ایسے شخص کے حوالے کردیاجسے بنیادی امور کے درمیان فرق بھی معلوم نہیں تھا، جس کے بارے میں ان کی پوری پارٹی اور انہیں لانے والے بار بار ہٹانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن وہ اسے رکھنے پر بضد تھے کیونکہ اس کے ذریعے ان کے قریبی لوگ کرپشن کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے وعدے، ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے دعوے ، عملاً معیشت کی مکمل تباہی کا باعث ثابت ہوئے اور ساڑھے تین برسوں میں 4وزرائے خزانہ کی تبدیلی ، امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتِ حال ، خارجہ پالیسی میں اوٹ پٹانگ فیصلوں سے چین اور سعودی عرب جیسے دوستوں کو ناراض کردیا۔جھوٹ کا یہ عالم کہ ان کے نام کے ساتھ مسٹر یو ٹرن کا لاحقہ مستقل طور پر لگ گیا۔ انصاف کے نام پر سیاسی انتقام اور ناانصافی کی انتہا کردی، اپوزیشن کے تقریباً تمام سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ نیب کے چیئرمین کو ایک وڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے گئے ۔ میڈیا میں ہر اس آواز کو دبادیا گیا جس نے ان کی فاشسٹ پالیسیوں کی مخالفت کی، حامد میر ، مطیع اللہ جان ، اسد طور، ابصار عالم ، طلعت حسین اور دیگر بے شمار صحافیوں کوملازمتوں سے برطرف کردیا۔ سیاسی بصیرت کا یہ عالم کہ سب کے منع کرنے کے باوجود پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا اور کہا گیا کہ یہ کپتان کا ماسٹر اسٹروک یعنی چھکّا ہے۔ لیکن کپتان کے دیگر انتشار پھیلانے والے اقدامات کی طرح کپتان کا یہ ماسٹرا سٹروک بھی بائونڈری لائن پر کیچ ہوگیا ہے۔ آنے والے دن بتا رہے ہیںکہ سازشوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والا کپتان اپنی ہی سازشوں کا شکار ہو چکا ہے کیوں کہ اِسی کا نام مکافات ِ عمل ہے۔ انہوں نے جو گڑھے دوسروں کے لئے کھودے تھے اب وہ خود انہی میں گرنے والے ہیں۔