مودی حکومت کے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو مکارانہ اقدام کے تحت ختم کئے جانے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کے رابطوں میں پیش رفت ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا گوکہ سابقہ حکومت کے اس فیصلے پر موجودہ حکومت بھی سختی سے عمل کر رہی ہے لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود نتائج اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے مقاصد میں بھی پیشرفت اگر رکی نہیں تو دھیمی ضرور پڑ گئی ہے لیکن ان پر ظلم وستم پہلے کی طرح جاری ہیں اور اگر حالات اسی طرح رہتے ہیں تو اس کا نقصان بہرحال مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اور پاکستان دونوں کا ہوگا۔ اس لئے کشمیر کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے بعض تجزیہ نگار اور مبصرین آئین کے آرٹیکل 370 کی بحالی کیلئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس صورتحال کا کوئی حل نکالنے یا متبادل طریقہ کار وضع کرنے کے بارے میں یقین رکھتے ہیں۔
پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی حکومت نے ایک صدارتی حکمنامہ بھارتی ایوان بالا میں پیش کیا جس میں ہندوستانی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا چونکہ یہ پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اس لئے اس کی منظوری میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔ اس شق کے تحت کشمیر کو بھارتی وفاق میں ایک مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کا ردعمل تو انا ہی تھا اور بہت زیادہ آیا لیکن پاکستان کا بھی اس پر احتجاج عالمی سطح پر دیکھنے میں آیا ،جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی فضاء بدستور موجود ہے پاکستان نے بھارت کے مذکورہ اقدام کے بعد اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے نئی دہلی سے اپنے ہائی کمشنر کو اور بھارت نے اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا اور بعد میں مختلف الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے سفارتی عملے کی تعداد میں بھی نمایاں کمی کر دی گئی۔
گوکہ کچھ عرصہ پہلے محدود تعداد میں سفارتکاروں کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے لیکن ابھی تک سفارتکاری کی اعلیٰ سطح بحال نہیں ہے گوکہ اس دوران مختلف رسمی معاملات کے حوالے سے دونوں ملکوں میں بے ضرر رابطے بحال ہیں جس میں ’’مذہبی سیاحت‘‘ سرفہرست ہے اور پاکستان کی جانب سے حسن ابدال میں سکھوں کے مقدس مقامات اور کرتارپور راہداری کیلئے آسانیاں اس حوالے سے قابل ذکر ہیں جہاں زائرین کی آمدورفت ایک خوشگوار فضا میں ہوتی ہے لیکن خطے کے دونوں اہم ممالک کے درمیان بعض ایسے رابطے، تعلقات اور اس ہم آہنگی کا فقدان ہے جو خطے کے دوسرے ممالک کی بھی ضرورت ہیں اس حوالے سے سارک تنظیم کا حوالہ بھی اہم ہے گوکہ اس تنظیم کی وساطت سے ابھی تک کوی غیر معمولی اہمیت کی حامل یا قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بہرحال سارک کے سربراہی اجلاس میں براہ راست رابطے بالخصوص پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ہوتے تھے۔
ایک اہم واقعہ ہوتا۔ سارک تنظیم کا آخری سربراہی اجلاس 2014 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہوا تھا جس میں پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اور بھارت کی نریندر مودی نے کی تھی لیکن اس کے بعد پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود تنظیم کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے اب ایک طرف تو مودی حکومت جس نے خود آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا ہے ان کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کو خود ہی واپس لے لیں پھر وہاں ایک مضبوط، فعال اور بااثر اپوزیشن موجود ہے جس کی موجودگی میں اس نوعیت کا کوئی بھی فیصلہ مودی کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم نے جس قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ سنایا ہے کہ جب تک بھارتی حکومت اپنا یہ فیصلہ واپس نہیں لیتی اس سے کسی قسم کا رابطہ، مذاکرات یا تعلقات رکھنا کشمیریوں کے خون سے غداری کے مترادف ہوگا تو یا دونوں طرف سے بطاہر فیصلوں میں کوئی لچک کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
لیکن یہاں یہ بات لمحہ فکر سے کم نہیں کہ اگر حالات ’’جوں کے توں‘‘ کی شکل دیر تک قائم رہتی ہے تو اس کا نقصان سراسر پاکستان کو ہی ہے کیونکہ بھارت اپنی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت اب مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ بالخصوص سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں لیکن یہ آغاز ہوگا جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا جائے گا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مطلوبہ ماحول فراہم کرنے کے نام پر ایسے ’’ حفاظتی اقدامات‘‘ کئے جائیں گے جن سے وہان مقامی باشندوں پر زمین تنگ کر دی جائے گی۔
گوکہ دہلی حکومت کا خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کے اثرات مقامی آبادی پر بھی پڑیں گے اور وہاں خوشحالی اور روزگار کے نئے مواقع ان کے مالی حالات کو بہتر کریں گے تو اپنی آزادی کیلئے آواز اٹھانے اور احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کی بجائے معاش کی طرف زیادہ توجہ دیں گے لیکن کشمیر میں آزادی کیلئے قربانیوں پر نظر ڈالیں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آزادی کی تحریک کیلئے جانیں قربان کردینے کی داستان رقم کرنے والے کشمیریوں کے احتجاج اور عزائم کے پیش نظر غیر ملکی سرمایہ کار ہی اس طرف راغب نہ ہوں کیونکہ سرمایہ کار کو سب سے زیادہ عزیز اپنے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اگر اسے اندازہ ہوگیا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ یہاں سرمایہ کاری محفوظ نہیں تو بھارت کیلئے یہ ایک بڑی ناکامی ہوگی۔
بین الاقوامی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے گو کہ کورونا وبائی عفریت فی الوقت بعض اہم فیصلوں اور اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہے لیکن فیصلے ہوچکے ہیں یہ وجہ تاخیر کا باعث ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات صرف جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہورہے ہیں اور پاکستان اپنے محل وقوع کے باعث بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوتے نہیں رہ سکتا اسی صورتحال کے پیش نظر عالمی طاقتوں کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں ظاہر ہے کہ اگر ترجیحات بدلیں گی تو ممالک اپنی خارجہ پالیسی بھی تبدیل کریں گے۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے عمل میں مصروف ہے تاہم بعض حوالوں سے صرف پاکستان نہیں بلکہ ہر ملک کی خارجہ مستقل ہوتی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم حوالہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر ہے جس پر پاکستان کی ہر حکومت نے ایک ہی موقف اختیار کیا ہے گو کہ اس حوالے سے کئی بار اس مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز، سفارشات، بیک ڈور رابطوں اور مذاکرات کی کوششیں کی گئیں اور امکانات پر بات ہوئی لیکن پاکستان کبھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے گزشتہ کچھ عرصے اور بالخصوص موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے غیر روایتی اور غیر معمولی انداز میں پیش رفت ہوئی۔
یہ بھی اعتراف کرنا ہوگا ایک طرف جہاں بھارت کو اس حوالے روایتی ہٹ دھرمی پر اہم پلیٹ فارمز پر ہمزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں دنیا کی مختلف پارلیمانز، انسانی حقوق کے اداروں، عالمی سول سوسائٹی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت اور پاکستان کے موقف میں اضافہ ہوا ہے تاہم اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اہم حکومتوں اور اس مقصد کیلئے قائم بعض اداروں کی جانب سے وہ حمایت اور بیانیہ سا منے نہیں آیا جن کی توقعات تھی بالخصوص ان اسلامی ممالک کی جابن سے جنہیں پاکستان برادر اسلامی ملک قرار دیتا ہے۔
اس ضمن میں قدرے افسوس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم(OIC) کی خاموشی اور مصلحت آمیز طرز عمل کا بھی تذکرہ ہوگا جب پاکستان کی جانب سے کشمیر کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی تو اسے درخود اتنا نہ سمجھا گیا اور پھر جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ عندیہ دیا کہ اگر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور وہاں کئے جانے والے اقدامات کے پیش نظر اسلامی تعاون کا اجلاس فوری طور پر نہیں بلایا گیا تو پاکستان اپنے طور پر اس حوالے سے پیش رفت کرے گا جس پر ناخوشگوار طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا جو ناراضی کا اظہار بھی تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم اور استبداد ور خیر کا سلسلہ جاری رہا وہیں پاکستان میں موجودہ حکومت کے دوران ہی مودی حکومت نے وہاں ایسے اقدامات بھی کئے جس سے پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کی بقا اور آزادی کو شدید نقصان پہنچا۔
5 فروری دنیا بھر میں موجود پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور ظلم و نا انصافی کا شکار کئی دہائیوں سے اپنے عزم اور منصف پر ڈٹے رہنے والے مقبوضہ کشمیر سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور خود پر ہونے والے مظالم ناانصافیوں اور بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے انہیں جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔ اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیر ا فراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 نافذ کرنے کے وار سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اس سے مودی حکومت کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی ریاست کے شخص سے شادی کرے تو اس خاتون کو جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جائے گی۔ اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرے تو اس کے شوہر کو بھی جموں وکشمیر کی شہریت مل جاتی ہے۔ جموں وکشمیر ہندوستان کے ترانے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں ہے۔
یہاں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا حکم بھی قابل قبول نہیں۔ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا ہے۔ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں وکشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا اور یہ قانون صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز دیگر بھی اور سرکاری اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر بلا قانونی جائیدادیں حاصل نہیں کر سکتیں۔ جموں وکشمیر میں خواتین پر شریعت قانون نافذ ہوتا ہے۔ یہاں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک فیلٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہوگئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔5 اگست 2019 سے نافذ کئے اقدامات کے اثرات بھی جاری ہیں، پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن خبر کے ذریعے خاموش کی جانیوالی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں احتجاج کررہی ہیں۔
التجا کررہی ہیں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھارہی ہیں جنہیں سننے کے لئے سماعتوں کی نہیں بلکہ دل اور بیدار ضمیر کی ضرورت ہے بھارت نے غیر ملکی صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے البتہ اپنے ہم خیال طبقات کو وہاں لے جانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ نئی دہلی میں متعین غیر ملکی سفیروں کو وادی کا دورہ کرانے کی دعوت دی گئی تو ان شخصیات کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا جنہوں نے و ادی میں آزادانہ گھوم پھر کرعوام کے جذبات جاننے اور حالات کا اپنی مرضی کے مقامات پر جا کر جائزہ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی کشمیری رہنمائوں آل پارٹی حریت کانفرنس اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان سے رابطہ کرنے پر زور دیا تھا لیکن انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے چنانچہ سفیروں اور دیگر سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے وادی کا دورہ کرنے سے انکار کردیا۔