(گزشتہ سے پیوستہ)
حکومت کو میدان بھائیاں والا میں حویلی نونہال سنگھ اورگورنمنٹ وکٹوریہ اسکول کی مفصل تاریخ کسی پتھر پر کندہ کرانی چاہئے ۔یہ سارا علاقہ بہت تاریخی اور خوبصورت ہے ۔دُکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گلیوں اور بازاروں میں اتنا گند ہے کہ آپ یہاں سے گزر نہیں سکتے، پچھلے پچاس برسوں میں تیرہ دروازوں کے اندر صفائی کی صورتِ حال مزید ابتر اور خراب ہو چکی ہے۔یہ وہ تاریخی شہر ہے جس کے اندر بے شمار مکانات، حویلیاں اور گلیاں چھوٹی اینٹ (نانک شاہی) کی آج بھی موجود ہیں ۔کاش ہماری حکومت اس تاریخی شہر کو محفوظ کر سکے ۔چلتے ہیں اپنے پچھلے کالم کی طرف کہ اس اسکول میں ایک انتہائی قدیم درخت تھا جو ہم نے دیکھا تھا، اس درخت کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں کوئی سایہ ہے کئی دفعہ بچیاں ڈریں بھی اور بیمار بھی ہوئی تھیں۔چنانچہ اس درخت کو کٹوا دیا گیا ، اس اسکول کے نئے بلاک والی جگہ پر بڑا خوبصورت باغ اور فوارہ تھا، یہ باغ اور فوارہ ن لیگ کی حکومت نے کئی سال پہلے تباہ وبرباد کر دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس تاریخی حویلی میں آج بھی کچھ نیک اور بد روحیں رہتی ہیں مگر اسکول میں زیر تعلیم 1200بچیوں اور52اساتذہ کو کچھ نہیں کہتیں۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تاریخی حویلی کو دیکھنے کئی ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات آتی رہی ہیں۔مثلاً شاہِ ایران اور ان کی اہلیہ فرح پہلوی بھی اس حویلی کو دیکھنے آئی تھیں اور چند برس قبل تک ان کی اس حویلی کےدورے کے حوالے سے ایک یادگار تصویربھی موجود تھی اب وہ تصویر کہیں کھو گئی ہے مگر اس حویلی کی دیکھ بھال اور مرمت کے لئے حکومت ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔شاید اس علاقے کا روایتی قبضہ مافیا اب اس انتظار میں ہے کہ یہ تاریخی اسکول گر جائے یا اس کو خطرناک قرار دے دیا جائے تو پھر وہ یہاں کی اربوں روپے مالیت کی زمین پر قبضہ کرلے۔1200بچیاں ، اساتذہ اور اسکول کااسٹاف جب اس تاریخی عمارت میں روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے تک موجود رہے گا تو یقیناً یہ عمارت مزید خستہ حالی کا شکار ہو جائے گی ۔آج بھی اگر اس قدیم حویلی پر صرف چند لاکھ روپےخرچ کر دیے جائیں تو یہ عمارت مزیدپچاس برس کے لئے محفوظ ہو سکتی ہے۔
حکومت نے اگراس خوبصورت اور تاریخی حویلی کوقومی ورثہ قرار دے کر محفوظ نہ کیا تو آنے والے صرف چند برسوں میں یہ عمارت گرسکتی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس حویلی کے سامنے دو مکان اس حد تک ٹیڑھے ہو چکے ہیں جو کسی بھی وقت اس اسکول کی عمارت پر گر سکتے ہیں جب کہ حکام اس سے بالکل بے خبر ہیں ، کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے، ان دونوں مکانوں میںبھی لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اس میدان بھائیاں والا میں ایک مندر اور کنواں بھی تھا اب ان کے نشان تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
کسی بدذوق نے اس اسکول کی مختلف دیواروں اور خصوصاً چوتھی منزل پر مختلف نقش ونگاربنانے کی ناکام کوشش کی ہے جو تمام نقش ونگار اکھڑ چکے ہیں ، ان کے رنگ بھی پھیکے پڑ چکے ہیں جب کہ دوسری طرف کنور نونہال سنگھ کی حویلی کے شیش محل میں جو پینٹنگز دیواروں پر بنائی گئی ہیں وہ 2سو برس گزرنے کے باوجود آج بھی اپنے اصل رنگوں اور اصل حالت میں موجود ہیں ۔ حکومت کے کسی احمق منصوبہ ساز نے انتہائی بھونڈے انداز میں اسکول کے دالان کی دیواروں پر جو پینٹنگز بنائی ہیں وہ سب کی سب خراب ہو چکی ہیں ۔پھر کسی اور عقلمند نے اس چھوٹی اینٹ کی عمارت کے ایک کمرے کے باہر لال رنگ کے سیمنٹ کا پلستر کرکے عمارت کے تاریخی حسن کو تباہ کر دیا ہے، چھوٹی اینٹ اور مٹی کے گارے سے تعمیر کردہ یہ اونچی سیڑھیاں آج بھی بڑی مضبوط اور اپنی اصل حالت میں ہیں۔
اس عالیشان حویلی میں ہم کوئی چار گھنٹے رہے اس کے اندر بے شمار، خوبصورت اوربڑے بڑے دالان اور تہہ خانے ہیں، اس عمارت میں یقیناً اور بھی تہہ خانے ضرور ہوں گے مگر پتہ نہیں اسکول کی انتظامیہ نے ہم سے بعض تاریخی حقائق اور عمارت کے بارے میں کچھ باتیں کیوں چھپائیں۔حالانکہ ہم بہت سارے حقائق خود بھی جانتے ہیں۔چھتوں پر طلائی کام بہت خوبصورت لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب مہاراجہ کھڑک سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور کنور نونہال سنگھ نے اس حویلی کی تعمیر شروع کرائی تھی تو کئی مکانات کو بھی گرا دیا گیا تھا کبھی یہاں کی ساری گلیاں بڑی وسیع تھیں۔
حویلی نونہال سنگھ /گورنمنٹ وکٹوریہ ہائی اسکول کا مرکزی دروازہ 2سو برس قدیم ہے اور آج بھی بالکل اپنی اصل حالت میں ہے اس دروازے پر پیتل کے بڑے خوبصورت پھول اور ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ دکھ اور افسوس اس بات پر ہے کہ آج تک کسی کو یہ توفیق نہیںہوئی کہ اس کی صفائی وغیرہ ہی کرالیتا۔یہ بہت بڑا دروازہ ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دروازے کو ابھی تک دیمک نہیں لگی۔ اس تاریخی اسکول کی بہت سی چیزیں آج بھی اپنی اصل حالت میں ہیں اگر حکومت تھوڑی سی توجہ اس پر دے تو اس تاریخی عمارت کا حسن دوبالا ہو سکتا ہے اور یہ سیاحوں کے لئے ایک بہترین تفریح گاہ ثابت ہو سکتی ہے۔
لاہور شہر کے اندر بے شمار تاریخی حویلیاں ہیں جو سیاحت اور پرانی عمارتوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک انمول خزانہ ہیں ،اس مرتبہ ہم لاہور کے شاہی محلے کے قدیم مکانات کو دیکھنے چلے گئے۔ شاہی محلہ اب لاہور کی سب سے بڑی فوڈا سٹریٹ بن چکا ہے، کبھی اس کا نام ہیرا منڈی اور بازار حسن بھی رہا ہے ۔ہیرا سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا منہ بولا بیٹا تھا اس نے یہ علاقہ آباد کیا تھا۔(جاری ہے )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)