• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درویش ایک ایسے سماج کا خواب آنکھوں میں لیے گزشتہ دو دہائیوں سے جدوجہد کر رہا ہے جسے وطنِ عزیز کے بورژوا ہی نہیں بلکہ روشن خیال حلقوں نے بھی محض اس بنا پر مسترد کر دیا کہ غیرسرکاری تنظیموں کی فنڈنگ کا حصول سڑکوں پر جدوجہد کرنے کی نسبت آسان اور عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنااور اس کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرنا مشکل ہی نہیں، موجودہ حالات میں کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ان حالات میں جب عوامی سیاست کے باب میں جمود طاری ہے اور ملک میں بائیں بازو کی سیاست نظری بنیادوں پر اپنا وجود تو رکھتی ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک قومی سیاسی منظرنامے پر ایسی کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں تھی جو کھل کر بائیں بازو یا سوشلسٹ نظریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سیاست کر سکتی۔ تاہم، اس باب میں اب حقوقِ خلق پارٹی نے اس سیاسی جمود کو توڑا ہے جو عوامی سیاست کے باب میں بھٹو شہید کے بعد کئی دہائیوں سے طاری تھا۔ حقوقِ خلق پارٹی نے ایک خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے پارٹی کے صدر کامریڈ فاروق طارق کی رہنمائی میں پارٹی قیادت متحرک ہے جس میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمار علی جان کا کردار نمایاں ترین ہے جو مجھ درویش کی طرح کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ حوالات کے درشن بھی کر چکے، مگر 29 جنوری کو شہرِ بے مثل کے پسماندہ ترین صوبائی حلقے 159 میں آوازِ خلق مارچ کرکے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے علاوہ عوامی حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، یہ حلقہ چونگی اَمر سدھو، قینچی، غازی روڈ کی کچھ آبادیوں اور ستارہ کالونی کے علاوہ شہر کے پسماندہ ترین علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اس حلقے میں کوئی قبرستان نہیں، پینے کے صاف پانی کی سہولت دستیاب نہیں، یہ علاقہ ان لوگوں کو بجا طور پر عبرت دلانے کے لیے دکھایا جا سکتا ہے جو شہرِ بے مثل کی ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار علی جان نے اس حلقے کے پچھڑے ہوئے اور محروم طبقات کے لیے آواز بلند کی ہے، وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ چکے ہیں کیوں کہ شہر میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد مارچ تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، میڈیا کی بے اعتناعی کا کیا شکوہ کرنا کہ عوامی مسائل کے لیے بات کرنے والوں کے لیے اس میدان میں بہت سی رکاوٹیں درپیش ہیں مگر درویش کو امید ہی نہیںبلکہ یقین بھی ہے کہ ڈاکٹر عمار علی جان اور پارٹی قیادت اپنی سوچ کے مطابق حقوق خلق پارٹی کو صوبائی دارالحکومت یا پنجاب تک ہی نہیں بلکہ بھر میں گراس روٹ لیول تک لے جانے میں کامیاب رہے گی۔ڈاکٹر عمار علی جان نوجوان ہیں، متحرک ہیں، قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بھی ہیں ۔ ان کی پارٹی کا منشور بھرپور اور جاندار ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کو ہر عمر کے ان نوجوانوں کا تعاون حاصل ہے جو ان کی کاز سے وابستگی محسوس کرتے ہیں۔

درویش کے گزشتہ چند روز غیرمعمولی طور پر مصروف رہے،یہ مصروفیت اس حوالے سے اہمیت کی حامل تھی کہ ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر ڈاکٹر اشتیاق احمد سے ملاقات کا موقع مل گیا۔ میرے لیے پروفیسر صاحب محض ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ یا تاریخ دان نہیں بلکہ ایک استادکے طور پر بھی درویش کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور کے ’’بڑھاپے‘‘ کی دہلیز پر قدم رکھ چکے کچھ نوجوانوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ کلچرل ریسرچ (پی آئی ایچ سی آر)کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو فی الحال رجسٹریشن کے مراحل میں ہے اور ڈاکٹر اشتیاق احمدکا اس ادارے کا اعزازی پیٹرن اِن چیف کا عہدہ قبول کرنا نئے قائم ہونے والے ادارے کی ترقی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا کیوں کہ پنجاب پر ان کا کام کسی طور پر نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں جب کہ کچھ عرصہ قبل قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور سیاست پران کی کتاب ایک اہم دستاویز کا درجہ حاصل کر چکی ہے جسے ’’جھوٹ‘‘ پر مبنی تاریخ لکھنے اور پڑھنے کے عادی محققین متنازعہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔یہ کتاب یقیناً بہت جلد اُردو زبان میں بھی دستیاب ہو گی اور اگلے چند روز میں ڈاکٹر اشتیاق احمد کے ساتھ ان کی تحقیقی کاوشوں پر چند نشستوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ اس ادارے کے تحت مارچ سے صوبہ بھر کے 100منتخب مقامات کے داخلی راستوں پر کتبے (Plaques) نصب کیے جائیں گے جن پر ان شہروں کی تاریخ جامع طور پر درج ہو گی جب کہ پنجاب اور لاہور کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں کے اردو تراجم کے علاوہ لاہور اورصوبے کی تاریخ و ثقافت پر تحقیقی مجلے کی اشاعت کا منصوبہ بھی زیرِغور ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان نےا گر سیاست میں نعرۂ حق بلند کیا ہے تو یہ آنے والے برسوں میں ایک علمی و ثقافتی انقلاب میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے لیے سرکاری اداروں اور بالخصوص متروکہ وقف املاک بورڈ کے موجودہ سربراہ سید حبیب الرحمان گیلانی کا کردار فیصلہ کن ہے جن سے غائبانہ تعارف تو ہے مگر ملاقات نہیں ہوسکی۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ ادارہ بہت سوں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا ہے۔ ماضی میں ایک ایسے صاحب بھی اس کے سربراہ رہے جنہیں خبروں میں رہنے کا جنوں تھا مگر وہ کرپشن الزامات کے بعد سے منظرنامے سے غائب ہیں تاہم ان سے مستفید ہونے والے ، جن میں کچھ اپنے بھی شامل ہیں، ضرور ان کی ’’طویل العمری ‘‘ کی دعا کرتے ہوں گے۔ درویش ا س موضوع پر پھر کبھی تفصیلی کالم لکھے گا۔یہاںدرویش گیلانی صاحب کو یہ تجویز دینے کی جسارت کررہا ہے کہ اوقاف کے دائرہ کار میں آنے والی تاریخی اہمیت کی حامل وہ پراپرٹی جو گایوں کے باڑوں، نشہ کرنے والوں کے اڈوں، رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیںیا لاوارث ہیں، وہ موجودہ کرایہ داروں سے واپس لے کر ان شہروں کے دلچسپی رکھنے والے صاحبِ ثروت لوگوں یا اداروں کی نگرانی میں دی جائیں جو ان کا تاریخی تشخص بحال کریں جس کی ایک مثال گوجوانوالہ کے تاریخی قصبے رسول نگر میں قائم تاریخی جین مندراورسکھوں کا مقدس گوردوارہ بھی ہے، لاہور کے مضافات میںبھی ، اگر پروا نہ کی گئی تو ایسے بہت سے مقامات ہیں جو اگلے چند سال میں منہدم ہوجائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گیلانی صاحب ان عمارتوں کو محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر تاریخ کے ایک عہد کو اگلی نسلوں تک منتقل کر جائیں ۔ امید ہے ، شاہ صاحب اس اہم معاملے میں ذاتی دلچسپی لیں گے کیوں کہ جدوجہد کبھی انفرادی نہیں ہوا کرتی بلکہ ڈاکٹر عمار علی جان کی سیاست، ڈاکٹر اشتیاق احمد کی تحقیق اور گیلانی صاحب کی تاریخ کو بچانے کے لیے جدوجہد ایک مقام پر آکر ضرور یکجا ہوگی، جو سماج کی ثقافتی ترقی کے علاوہ تاریخی ورثے کے تحفظ اور سیاسی شعور کی بالیدگی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین