• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا تعین کرنے کی غرض سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے لکھے گئے خطوط پر دونوں صوبوں کے گورنرز کا ایک جیسا جواب بہت حیران کن ہے ۔ دونوں گورنرز نے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ ملک کی معاشی اور امن وامان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیز ، سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرے ۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن اور گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے اپنے جوابی خطوط میں اگرچہ یہ کہا ہے کہ وہ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن حالات کو جواز بنا کر انہوں نے انتخابات کو موخر کرنے کی تائید کر دی ہے۔

حالات کو جواز بنا کر انتخابات کا التوا یا ان میں تاخیر پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی طرح پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ بقول محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری قوم کے جمہوری ریکارڈ کا مطالعہ آگے بڑھتے ہوئے قدموں اور پیچھے کو دھکیل دینے والے واقعات کی ایک اداس داستان ہے ۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات کا التوا یا ان میں تاخیر جمہوریت کو پیچھے دھکیل دینے والا ایک واقعہ ہو گا اور اس پسپائی کی کوئی حد نہیں ہو گی ۔ یہ عمل جمہوریت اور جمہوری قوتوںکیلئےنقصان دہ ہو گا ۔ اس کے ذریعہ آئین سے انحراف کا راستہ کھل جائے گا ۔ آئین میں انتخابات کے التواء یا ان میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ۔ آئین کے آرٹیکل 224 میں لازمی قرار دیا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90دنوں کے اندر انتخابات کا انعقاد ہو گا ۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 105 ( 3 ) (اے ) کے تحت گورنرز نے ہی عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنی ہے لیکن اس آرٹیکل نے بھی گورنرز کو پابند کیا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90دنوں کے بعد کی تاریخ مقرر کریں یا حالات کو جواز بنا کر انتخابات کوموخر کرنے کیلئےدلائل دیں ۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں ، گورنرز کو ہر حال میں تاریخ کا تعین کرنا ہے ۔ مجھے نہیں سمجھ آ رہی ہے کہ اس آئینی تقاضے سے کیسے انحراف کیا جا سکے گا ۔ انتخابات کے التوا یا ان میں تاخیر کا شاید ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں ’’ ایمرجنسی ‘‘ یا ’’ ہنگامی حالات ‘‘ کا آئین کے مطابق نفاذ کر دیا جائے ۔ اس وقت ملک میں ایمرجنسی نافذ نہیں ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 232کے تحت ایمرجنسی کا نفاذ صدر مملکت کا اختیار ہے ۔ یہ اختیار بھی تب استعمال ہو سکتا ہے ، جب وہ اس امر سے مطمئن ہوں کہ ملک میں سنگین ہنگامی حالات ہیں ، جن میں ملک کی سلامتی کو جنگ یا بیرونی جارحیت سے خطرہ ہے یا اندرونی انتشار ہے ، جسے صوبائی حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کی بھی اس آرٹیکل کے تحت کچھ شرائط ہیں ۔ اگر خراب داخلی حالات کی وجہ سے ایمرجنسی لگائی جاتی ہے ، جسے کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کا بس نہیں تو پھر متعلقہ صوبائی اسمبلی لاز می طور پر اس کیلئےقرار داد منظور کرے گی اور ایمرجنسی کے نفاذ کی سفارش کرے گی ۔ اگر صدر اپنے طور پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان دس دن کے اندر اس کی منظوری دیں گے ۔ ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت میں پارلیمنٹ کو صوبے کیلئےقوانین بنانے کا اختیار ہے ۔ پارلیمنٹ بھی ان امور کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے ، جو فیڈرل یا کنکرنٹ لیجسلیٹو لسٹ میں شامل نہیں ہیں ۔ مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس وقت ملک میں ایمرجنسی نافذ نہیں ہے ۔ فی الحال آئینی طور پر انتخابات سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ آئین میں کہیں نہیں ہے ۔ الیکشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 57 (۱) کے تحت انتخابات کی تاریخ کیلئےالیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت ضروری ہے لیکن الیکشن کمیشن بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ الیکشن کرانےکیلئے تیار نہیں ہے ۔ اگر کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کیا گیا تو بات بہت دور تک چلی جائے گی ۔ اس وقت ملک میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ موجودہ داخلی اور معاشی حالات میں ملک انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے کچھ لوگ یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں آئین کے تحت چھ ماہ کی تاخیر کی جا سکتی ہے لیکن چھ ماہ کے بعد تاخیر کی تو آئینی طور بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ چاہے حالات ٹھیک ہوں یا نہ ہوں مگر بعض حلقے طویل عرصے تک انتخابات کے التواء کی باتیں کر رہے ہیں ۔ ملک میں قومی حکومت کے قیام کی افواہیں بھی چل رہی ہیں ۔ لگتا ہے کہ کسی ’’ گریٹ گیم ‘‘ کیلئے پاکستان میں ایسے ہی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ، جیسی 1979 ء اور 1999 ء میں ہوئی تھی ۔ اگر داخلی اور معاشی حالات کو جواز بنا کر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حالات مزید خراب نہیں ہوں گے ۔ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے والے حالات کو کیوں ٹھیک ہونے دیں گے ۔؟ حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنا ہے یا کسی ’’ گریٹ گیم ‘‘ کیلئےپاکستان کو دوبارہ تختہ مشق بنانے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنی ہے تو جمہوری عمل کو آئین کے مطابق جاری و ساری رکھا جائے ۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ انتخابات سے کسے سیاسی فائدہ یا نقصان ہو رہا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کچھ روز قبل بڑے پتے کی بات کی ہے کہ اگر ہم انتخابات قبل از وقت نہیں چاہتے تو ان میں تاخیر بھی نہیں چاہتے ۔ میں سمجھتا ہو ںکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات اگر قبل از وقت ہو رہے ہیں تو یہ آئینی عمل ہے ۔ آئین کے مطابق دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرا دیئے جائیں۔

تازہ ترین