• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 10)

تحویلِ قبلہ: 15شعبان2ہجری منگل کی دوپہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ مدینۂ منوّرہ کے ایک محلّے، بنو سلمہ میں حضرت بشرؓ بن براء بن معرور کے گھر طعام میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ ظہر کے وقت مقامی مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے، دو رکعت مکمل ہوچکی تھیں، تیسری رکعت شروع ہی کی تھی کہ اس دوران تحویلِ قبلہ کا حکم آگیا۔ ترجمہ:’’ہم آپؐ کے چہرے کو بار بار آسمانوں کی جانب اُٹھتا دیکھ رہے ہیں، لہٰذا ہم آپ کا مُنہ اسی قبلے کی جانب پھیر دیتے ہیں، جو آپ ؐ کو پسند ہے۔ 

آپ اپنا مُنہ مسجدِ حرام (کعبہ) کی جانب پھیر لیجیے اور جہاں کہیں بھی ہوں، اپنا رُخ مسجدِ حرام کی طرف کرلیا کریں۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔144 )۔ بیت المقدس مدینہ کے شمال میں، جب کہ کعبۃ اللہ جنوب میں واقع ہے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا، وہ مسجدِ نبویؐ کے مغرب میں بئرروما (مدینے کا ایک بڑا کنواں) کے قریب واقع ہے۔ یہ مسجد، مسجدِ قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ علامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہےکہ ’’یہ واقعہ ہجرت کے دُوسرے سال، رجب میں پیش آیا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ 235/3)۔

یہودیوں کا چراغ پا ہونا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً16ماہ تک بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی۔ مکّہ مکرّمہ میں آپؐ مقامِ ابراہیم ؑ کے سامنے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ جس کا رُخ بیت المقدس کی جانب تھا، اس طرح دونوں قبلے سامنے آجاتے تھے۔ مدینے میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قبلہ تبدیل کردیا۔ یہودی تو پہلے ہی مسلمانوں کے مخالف تھے، لیکن تحویلِ قبلہ نے انھیں سخت چراغ پا کردیا۔ بہت سے منافقین، جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اُن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ بیت المقدس سے مُنہ موڑ لینا، یہودیوں کو کسی طور بھی گوارا نہ تھا۔ ضعیف الایمان مسلمانوں کی ایک جماعت بھی معترض نظر آئی۔ 

ان کے مطابق، قبلہ بدلنے کی چیز نہیں ہوتی، اس سے بے استقلالی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس بِنا پر قبلے کی اصلیت، ضرورت اور تحویلِ قبلہ کے مصالح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے چند آیتیں بھی نازل فرمائیں۔ ان آیات میں اللہ نے پہلے یہ بتایا کہ قبلہ خود کوئی مقصود بالذات چیز نہیں ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے پورب، پچھم سب برابر ہیں۔ اللہ ہر جگہ، ہر سمت اور ہر طرف ہے۔ پھر قبلہ کی تعیین کی ضرورت بتائی کہ وہ اختصاصی شعار ہے، جو اصلی اور نمائشی مسلمانوں کو الگ کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ نے فرمایا کہ کسی خاص قبلے کی طرف رُخ کرنا اصل ثواب نہیں، بلکہ ثواب درحقیقت ایمان اور اعمالِ صالحہ کا نام ہے۔ (سیرت النبی، علامہ شبلی نعمانی، 188/1)۔

اِذن قتال اور حکمِ جہاد: آغاز میں مدینۂ منوّرہ میں انصار و مہاجرین سمیت مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔ مکّے میں تیرہ سال تک ظلم و استبداد، جبر و تشدّد اور رُوح فرسا مصائب جھیلنے کے بعد مکّے سے 450 کلومیٹر دُور دیارِ غیر میں ہجرت سے مسلمانوں کا خیال تھا کہ شاید قریش اب اُن کا پیچھا چھوڑ دیں گے، لیکن اس ہجرت نے قریش کے غیظ و غضب میں مزید اضافہ کردیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پورے ڈیڑھ سال تک صبر و تحمّل کے ساتھ جنگ پر صلح، انتقام پر درگزر اور شر پر خیر کو ترجیح دیتے رہے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ کفّار کا جذبۂ انتقام، جنون کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔

مسلمانوں کی حمیّتِ دینی انھیں بھرپور جواب دینے کوبے قرار تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کو حفاظتِ خود اختیاری کے تحت مدافعت کی اجازت نہ ملی، تو کفّار ِمکّہ، یہودی منافقین اور مشرکین آپس میں مل کر ان مُٹھی بھر اہلِ ایمان کا خاتمہ کردیں گے۔ چناں چہ اللہ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی۔ ترجمہ:’’جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے، اُنھیں بھی جنگ کی اجازت دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔‘‘ (سورۃالحج، آیت۔ 39)۔تفسیر ابنِ جریر میں ہےکہ قتال کے متعلق سب سے پہلی یہ آیت نازل ہوئی۔’’وقاتلو فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت۔ 190)۔ ان دونوں آیتوں میں ان ہی لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے، جو پہلے سے مسلمانوں سے لڑتے آئے ہیں، اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان درحقیقت لڑنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ (سیرت النبی، علامہ شبلی نعمانی۔ 193/1)۔

قریش کی چھاپہ مار کارروائیاں: یثرب کا مدینہ میں تبدیل ہونا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل ترین جدوجہد کا ثمر ہے، جس میں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر کام یابی و کام رانی نصیب ہوئی۔ ویسے تو مدینہ بیرونی خطرات سے محفوظ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ ہونے کی وجہ سے کفّار کے حملوں کی زَد میں تھا۔ قریش نے مدینہ کو تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ 

اُس کی جانب سے چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ ہجرت کے چند ماہ بعد ہی مکّہ کے ایک رئیس، کرز بن جابر فہری نے مدینے کی چراگاہ پر حملہ کیا اور رات کی تاریکی میں مسلمانوں کے بہت سے اُونٹ ہنکاکر مکّہ لے گیا۔ اس طرح کے واقعات اور قافلوں کو لُوٹنا روز کا معمول بن چکا تھا، چناں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسےواقعات کے سدِّباب کے لیے چھوٹے چھوٹے عسکری دستے تیار کیے۔ کرز بن جابر بعدازاں مشرف بہ اسلام ہوئے اور فتح مکّہ کے دن شہید ہوئے۔ (صحیح بخاری۔ 4280)۔

غزوات و سرایا کا آغاز: کفّارِ قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حفاظتِ خود اختیاری کے تحت مدینے کی سلامتی اور مسلمانوں کی بقا کے لیے جوابی اقدامات پرمجبور کردیا تھا۔ آپؐ نے سو سو، پچاس پچاس صحابہؓ کے دستے بناکر انھیں مختلف مہمّوں پر روانہ کیا۔ کچھ میں آپؐ خود بھی تشریف لے گئے اور اُن مہمّات میں حصّہ بھی لیا۔ ایسی مہمّات کو غزوات اور سرایا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

جس مہم میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس خود شریک ہوئے، اُسے ’’غزوہ‘‘ کہتے ہیں، جس کی جمع ’’غزوات‘‘ ہے۔ تاہم، یہ ضروری نہیں ہے کہ اس میں دُشمن سے لڑائی بھی ہو، کیوں کہ لشکر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا سُن کر دُشمن عموماً بھاگ جایا کرتا تھا۔ ’’سریہ‘‘ اُس مہم کو کہا جاتا ہے، جس میں آنحضرتؐ نے شرکت نہیں فرمائی اور سریہ کی جمع ’’سرایا‘‘ ہے۔

غزوات و سرایا کی کل تعداد: تعداد کے بارے میں مؤرّخین کے درمیان اختلاف ہے۔ ابنِ سعد، طبقاتِ ابنِ سعد میں لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ بن عقبہ بن ربیعہ کی روایت کے مطابق، کُل غزوات27ہیں۔ جن میں سے 9میں آپ ؐ نے شرکت فرمائی، جب کہ ’’سرایا‘‘ کی تعداد47 ہے۔ اس طرح غزوات اور سرایا کی کُل تعداد 74 بنتی ہے۔ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفّار سے کتنی جنگیں لڑیں؟‘‘ انھوں نے فرمایا ’’19۔ ‘‘پھر اُن سے پوچھا گیا،’’آپ اُن میں سے کتنے غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے؟‘‘ اُنھوں نے کہا کہ ’’17میں۔‘‘(صحیح بخاری۔ کتاب المغازی، حدیث۔3949)۔ اسی حدیث میں ’’فتح الباری‘‘ کا بیان ہے کہ صحیح روایات کے مطابق ’’غزوات کی تعداد21ہے۔‘‘ عین ممکن ہے کہ ابواء اور بواط میں عدم شرکت کی وجہ سے اُنہیں بیان نہیں کیا ہو، کیوں کہ زید بن ارقم اُس وقت چھوٹے تھے۔ (فتح الباری۔328/7 )۔

اہلِ مغرب کا منفی پروپیگنڈا: سب سے پہلے اس بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ 74 غزوات و سرایا کے معنٰی یہ نہیں ہیں کہ ان سب میں دُشمن سےجنگ و قتال ہوا ہو۔ ان میں سے اکثریت اُن غزوات و سرایا کی ہے کہ جن میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا گیا۔ مثلاً 27 غزوات میں سے صرف9 غزوات ایسے ہیں، جن میں جنگ ہوئی۔ باقی میں کفّار آپ ؐ کو دیکھ کر یا آپؐ کا نام سُن کر یا تو بھاگ جاتے یا چُھپ جاتے تھے۔ 

آپؐ غزوہ کی جگہ پر کم از کم تین دن قیام فرماتے اور وہاں قرب و جوار کے قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے۔ اس طرح یہ غزوات دُور دراز علاقوں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے۔ اسی طرح اگر ہم47 سرایا کا کُلی طور پر جائزہ لیں، تو سرحدوں پر گشت، دُشمن کی نقل و حرکت پر نظر، تعلیمی، تبلیغی، دفاعی اور دیگر مختلف اُمور پر بھیجے گئے دستے، انفرادی تصادم اور اجتماعی واقعات یہ سب سرایا کے دائرۂ کار میں شامل ہیں۔ 

حالاں کہ ایسے سرایا کم ہیں، جن میں قتل کی نوبت آئی۔ مؤرّخین اور اہلِ سِیر کے تحریر کردہ مغازی کی جنگ و جدل سے بھرپور طویل معرکوں کو اہلِ یورپ اور مغرب کے لوگ نہایت دل چسپی اور شوق سے سُنتے اور پڑھتے ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ یہ داستانیں پوری دُنیا میں پھیلیں۔ مغربی مؤرّخین نے ان ہی داستانوں کو غلط معنی و مفہوم دے کر انھیں تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے اور لُوٹ مار کی کارروائیاں قرار دے ڈالا۔ آیئے، ان جنگوں میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔

غزوات و سرایا میں قتل و شہید ہونے والے افراد کے اعداد و شمار: دس سالہ مدنی دَور میں27 غزوات اور47 سرایا ہوئے۔ ان سب میں شہید ہونے والے مجاہدین کی تعداد صرف225 ہے، جب کہ759کفّار مارے گئے۔ جنگی قیدیوں کی تعداد 6564 رہی۔ عرب کے جنگی قواعد و ضوابط کے تحت ان سب جنگی قیدیوں کو قتل کردینا چاہیے تھا، لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے 6347جنگی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ 215کے بارے میں اغلب گمان یہی ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ صرف2قیدی ایسے تھے کہ جنھیں شدید جنگی جرائم کی بناء پر سزائے موت دی گئی۔ (رحمۃ للعالمینؐ، قاضی سلیمان منصور پوری۔265/2 )۔

اسلامی جنگوں کے بارے میں اہلِ مغرب کا دُہرا معیار: یثرب سے مدینے کے سفر کی جدوجہد کے دوران پیش آنے والی مہمّات اور جنگوں کے اعداد و شمار اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ریاستِ اسلامی کے قیام کے بعد ان دس برسوں میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دُشمنوں کے ساتھ صلۂ رحمی اور نیک سلوک کا مظاہرہ کیا۔ اس کے برخلاف ذرا دُنیا میں ہونے والی چند جنگوں کا جائزہ لیں، خواہ وہ منگولوں کی مہم جُوئی ہو یا اسکندر اعظم کی فتوحات، جولیس سیزر، نپولین، ہٹلر کی مہمّات ہوں یا روس و فرانس کے انقلابات۔ امریکا کی سول وار ہو یا جنگِ عظیم اوّل و دوم کی تباہ کاریاں، ہر موقعے پر دُنیا پر قابض بڑی قوتوں کا عجیب متعصبانہ روّیہ نظر آتا ہے۔

حق و باطل آمنے سامنے: مدینۂ منوّرہ کے جنوب مغرب میں130کلومیٹر پر مدینہ سے شام جانے والے راستے میں دُشوار گزار گھاٹیوں کے درمیان ایک صحرائی وادی ہے۔ ایک مشرک سردار بدر بن عاصم نے تجارتی قافلوں کے لیے یہاں ایک کنواں کھدوادیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس کے قُرب و جوار میں بدر نام کی ایک بستی آباد ہوگئی۔ زمانۂ جاہلیت میں یہاں سالانہ میلہ لگا کرتا تھا، جہاں اہلِ عرب جمع ہوتے تھے۔ (طبقاتِ ابنِ سعد۔205/1)۔ 17؍ رمضان المبارک2ہجری بروز جمعہ علی الصباح، بدر کے میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ 

ایک طرف رئیسِ قریش، مشرکِ اعظم، دُشمنِ رسولؐ ابوجہل بن ہشام ایک ہزار ماہر جنگ جوئوں کے ساتھ خود میدان میں موجود تھا۔ دُوسری طرف 313 مفلوک الحال اللہ کے سپاہی، عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار اپنی گردنوں کو اللہ کی راہ میں کٹوانے کے لیے تیار تھے۔ حق و باطل، اسلام و کفر اور نُور و ظلمت سے سرشار دونوں قوتیں ایک دُوسرےکے مدِّمقابل تھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’جو لوگ باہم لڑے، اُن میں تمہارے لیے عبرت کا نشان ہے، ایک خدا کی راہ میں لڑرہا تھا اور دُوسرا منکرِ خدا تھا۔‘‘ (سورئہ آل عمران، آیت۔13)۔بدری صحابہ کی کُل تعداد 313 تھی، جن میں 82 مہاجرین اور 231 انصار تھے۔(طبقاتِ ابن سعد،203/1)۔

اپنے ہی جگر گوشے ایک دُوسرے کے مدِّمقابل: صحرائے بدر کے نیلے شفّاف آسمان پر روشن سُورج نے ایسا حیرت انگیز معرکہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اپنے ہی جگر گوشے، حق و باطل کے اس معرکے میں برہنہ شمشیروں کے ساتھ آمنے سامنے ہیں۔ اہلِ ایمان کی صفوں میں حضرت صدیقِ اکبر ؓ ہیں، تو مدِّمقابل لختِ جگر عبدالرحمٰن ہے۔ اس طرف عمر فاروقؓ ہیں تو کفّار کے سپہ سالاروں میں سگا ماموں ابوجہل بن ہشام اور عاص بن ہشام ہے۔ مجاہدین کی صفوں میں شیرِ خدا سیّدنا علی مرتضیٰؓ ہیں، تو مشرکین میں بھائی عقیل بن ابی طالب ہے۔ صفِ مسلم میں حضرت ابو حذیفہؓ ہیں، تو کفّار کا سالار سگا باپ عتبہ بن ربیعہ ہے۔ 

اہلِ حق کی صف میں حضرت مصعبؓ بن عمیر ہیں، تو مدِّمقابل ماں جایا ابو عزیز بن عمیر ہے۔ جاں نثارانِ حق کے سالار ِاعظم، سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو کفّارکی صفوں میں زبردستی لائے گئے سگے چچا عباس بن عبدالمطلب اور چہیتی صاحب زادی اورگوشہ جگر سیّدہ زینبؓ کے شوہر ابوالعاص بن ربیع ہیں۔ اور پھر چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ اچانک کفّار کی صفوں میں سے ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم برق رفتاری سے نکلا اور دوڑتا ہوا مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوگیا۔

یہ حضرت مصعبؓ بن عمیر ہیں، جب کہ اُن کے سامنے اُن کے والد، سہیل بن عمرو غم و غصّے کی تصویر بنے اپنے سگے بیٹے کو مجاہدین کی صفوں میں آبائو اجداد کے دین کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف دیکھ رہے ہیں اور یہی وہ اسلامی تعلق ہے کہ جس نے خون کے رشتوں کو اَجنبیت میں بدل دیا اور رُوحانی رشتے ہی حقیقی رشتے کہلائے۔ اب حبشہ کا مسلمان بدّو بلالؓ تو اپنا ہے، لیکن بنو ہاشم کا مشرک چچا ابولہب دُشمن۔ رُوم کا صہیبؓ تو عزیز ہے، لیکن حقیقی بیٹا عبدالرحمٰن اَجنبی۔ فارس کا سلمانؓ تو دوست ہے، لیکن قریش کا اُمیّہ غیرقرار پایا۔ (جاری ہے)