• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشاق کے ہاں رونے کا چلن پایا جاتا ہے، کبھی سینے میں دہکتا عشق الائو کا دھواں رُلا دیتا ہے، کبھی بے مہر زمانے کے کالے رسم و رواج کی اونچی اونچی آہنی دیواریں اور کبھی شب فراق کی تیرگی و طوالت سامانِ گریہ فراہم کرتی ہے۔لیکن ہمارے جذبات کی تہذیبی تشکیل عاشق سے تقاضا کرتی ہے کہ خواہ رات دن آنسو بہائو مگر ’چپکے چپکے‘۔خدائے سخن میرؔفرماتے ہیں’’پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ۔۔۔کتنے آنسو پلک تک آئے تھے‘‘۔اور شیخ ابراہیم زوقؔ کی خودداری کو بھی سرِ محفل گریہ زاری سے زک پہنچتی تھی،’ ’ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں.....بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی۔ ‘‘

یہ تو عشاق کا معاملہ ہے، اب ایک نظر اہلِ سیاست و سیادت پر بھی ڈالے لیتے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ آج تک ’سیاست دان اور چشمِ گریہ ناک‘ کا موضوع ہمارے لئے اجنبی رہا ہے، نہ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں کسی روتے دھوتے سیاست دان کا تذکرہ پڑھا، نہ اپنی آنکھ سے کسی سیاسی کارکن کو روتے پیٹتے دیکھا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان کی ثابت قدمی کی تاریخ کا حوالہ شایدیہاں غیر متعلق سمجھا جائے کہ وہ تو بڑے لوگ تھے۔ بات بھی صحیح ہے، امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ، حسرت موہانی ، دائود غزنوی اور حسین احمد مدنی جیسے اسیروں کا ہما شما سے کیا موازنہ۔چلئے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی روتا ہوا کارکن یا رہنما تلاش کرتے ہیں۔باچا خان نے اٹھارہ سال بہت سخت جیل کاٹی، کیا کسی مورٔخ کو یہ لکھنے کی جرأت ہوئی کہ غفار خان نے گرفتاری پر یا جیل میں آنسو بہائے تھے؟ کیا عبدالصمد اچکزئی کا کوئی دشمن بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ریاست کے جبر پرگریہ کناں دیکھے گئے؟ لیکن شاید یہ مثالیں بھی غیر متعلقہ ہیں کہ پختون اور بلوچ قوم پرستوں کے صبر واستقامت کا حریف تو اساطیرمیں بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔پنجاب پر نظر ڈالتے ہیں۔ضیا الحق کے مارشل لا کا دور تھا، پیپلز پارٹی ریاستی جبر کا ہدف تھی، لاہور میں اندرون شہر سے پی پی پی کے بیسیوں کارکن گرفتار کر کے شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں لے جائے جاتے تھے۔ ان سیاسی کارکنوں کوغیر انسانی ایذا ئیں دی جاتیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارا ایک ساتھی تھا، آغا نوید، اس پر قلعہ کے عقوبت خانے میں آلات کی مدد سے اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس کے اکثر اندرونی اعضا پھٹ گئے اور ہاتھ پائوں ہمیشہ کے لئے ٹیڑھے ہو گئے۔ میں حلفاً کہتا ہوں ہم میں سےکسی نے آغا نوید کوکبھی روتے دھوتے نہیں دیکھا، وہ خود پر ہوئے بہیمانہ تشدد کا جانکاہ قصہ اپنے ہم جماعتوں کو مسکرا کر سنایا کرتا تھا۔آغا نوید اکیلا نہیں تھا، اس جیسے درجنوں کارکنوں کی یہی کہانی تھی، ان میں سے کسی نے ریاستی تشدد کے سامنے استقامت اور وقار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ خیر،اب تو یہ قصے بھی لگ بھگ پینتالیس برس پرانے ہو چکے ہیں، حالیہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہماری نظر میں سیاسی راہ نمائوں کے باوقار رویوں کا کوئی قابلِ اطلاق معیار تو ہو۔

آصف علی زرداری نے کل ملاکر تقریباً گیارہ سال جیل کاٹی، ہر عدالتی پیشی پر سال ہا سال ہم نے انہیں یوں مسکراتے دیکھا جیسے ان کی لاٹری نکل آئی ہو، نواز شریف نے ایک سال جیل کاٹی، کبھی گریہ کرتے نہیں پائے گئے، مریم نواز نے بلا کی استقامت سے چھ ماہ جیل میں گزارے، نواز شریف اور مریم نواز کے جیل سیل میں تو کیمرے بھی لگائے جاتے تھے، تو کوئی ریکارڈنگ ہی دکھا دیں جس میں وہ چپکے چپکے آنسو بہاتے دکھائی دے جائیں۔حتیٰ کہ شہباز شریف اور حمزہ نے، جو مزاحمتی سیاست کے دعوے دار ہی نہیں، پامردی سے سالوں کی جیل کاٹی۔شاہد خاقان عباسی کو موت کی چکی میں قید کیا گیا اور انہوں نے چھ ماہ تک عدالت سے ضمانت ہی نہیں مانگی، رانا ثنااللہ کو ایک ایسی تنگ کوٹھڑی میں رکھا گیا جہاں آدمی نہ پورے قد سے کھڑا ہو سکتا تھا نہ پائوں پھیلا کر سو سکتا تھا، اور شدید گرمی میں ان کے سیل میں چینی پھینک دی جاتی جس پر ہزاروں چیونٹیاں دھاوا بول دیتیں، رانا صاحب رات بھر چیونٹیوں کے لشکر سے نبرد آزما رہتے، یہ سلسلہ سات ماہ تک چلتا رہا۔اب یہ فرمایے کہ کیاآپ نے کبھی رانا ثنااللہ کو روتے دیکھا؟ پروفیسر احسن اقبال کہتے ہیں عدالتی پیشی کے موقع پر میں اپنے بہترین کپڑے پہن کر جاتا تھاتاکہ ’میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو‘ کہ پسِ زنداں میں نے ’غرورِ عشق کا بانکپن‘ بھلا دیا ہے۔خواجہ سعد رفیق کے جیل کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ ’باخدا یہ شخص لوہے کا چنا ہے‘۔ مفتاح اسماعیل کو پکڑنے والوں کا خیال تھا گولیاں ٹافیاں بیچنے والا لڑکا ہے، دو دن میں رونے لگے گا، مگرمفتاح نے بھی اپنے صیاد کو سخت مایوس کیا۔

ملکی سیاسی تاریخ میں آج کل پہلی مرتبہ ہم ایک انوکھا منظر دیکھ رہے ہیں، یعنی، پھوٹ پھوٹ کر، موٹے موٹے آنسوئوں کے ساتھ،کیمرے کے سامنے بیٹھ کر روتے دھوتے سیاست دان۔شہباز گل گرفتار ہوئے تو بین کرنے لگے، اعظم سواتی پکڑے گئے تو بلک بلک کر رونے لگے، شیخ رشید ایک پولیس کانسٹیبل کی بانہوں میں سمٹ کر ہچکیاں لیتے نظر آئے، فواد چودھری بھی آب دیدہ پائے گئے۔یاد رہے کہ ان اصحاب کو عمر قید نہیں ہوئی، ان میں سے کسی نے ڈیڑھ دن جیل میں گزارا ہے تو کسی نے ڈھائی۔ سیاست دان کا ’مقصد‘ اگربڑا ہو تو استقامت آ جاتی ہے، مقصد بودا ہو تو آنسو آتے ہیں۔ویسے تو ہم ایسی گرفتاریوں کی حمایت نہیں کرتے لیکن یہ مرحلہ اگرآ ہی جائے تو عمران خان اور ان کے دوستوں سے درخواست ہے کہ آنکھوں کے مثانے پر قابو رکھئے، ایک سیاست دان اور ایک ’نئی نویلی بیوہ‘ میں آخرکچھ تو فرق ہونا چاہئے۔

تازہ ترین