• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں سیاست جمہوری اور پرامن انداز میں کی جاتی ہے وہیں سیاست میں کسی نہ کسی حد تک تشدد کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے اور سنگین الزام تراشی بھی کی جاتی ہے مگر کسی ملک سے اس قسم کی اطلاعات نہیں ملیں کہ کسی نے سیاسی تحریک یا مہم جوئی سے منسلک سیاسی کارکنوں کو خفیہ ہاتھوں کے ذریعے گمشدہ کیا ہو،جس کے بعد کچھ کی لاشیں مختلف مقامات سے ملتی ہیں یا کچھ کو ایک خاص مدت تک جیلوں میں بند رکھنےکے بعد رہا کردیا جاتا ہے جبکہ کچھ ایک لمبے عرصے تک گم ہی رہتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک‘ انسانیت دشمن اور جمہوریت دشمن سلسلہ کافی عرصے سے پاکستان میں شروع ہے اور اب تک جاری ہے‘ خاص سیاسی نظریے سے تعلق رکھنے والے ان سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کا سب سے بڑا نشانہ بلوچستان بنا اور بعد میں سندھ کو بھی نہ بخشا گیا ، سندھ بھی اس قسم کی غیر آئینی اور غیر قانونی حرکات کا بڑا نشانہ رہا ہے‘ جبکہ کسی حد تک یہ سلسلہ پنجاب اور شاید کے پی کے میںبھی شروع کیا گیا ہے‘ اس سلسلے میں بلوچستان اور سندھ میں عوامی مظاہرے بھی ہوتے رہے مگر اب تک ان انسان دشمن اور جمہوریت دشمن واقعات کا نہ مرکزی سطح پر اور نہ صوبائی سطح پر اعلیٰ پیمانے پر نوٹس لے کر آئین اور قانون کے تحت ضروری اقدامات کئے گئے ۔اس وقت بھی کچھ دنوں سے کراچی پریس کلب کے باہر متاثرہ خاندانوں اورسماجی کارکنوں کی طرف سے ایک احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ مجھے اس ایشو پر اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ کچھ دن پہلے مجھے مختلف حلقوں کی طرف سے گمشدہ کارکنوں کے ساتھ کئے گئے انتہائی ناروا اور وحشیانہ سلوک کے بارے میں افسوسناک معلومات فراہم کی گئیں۔ ان ذرائع سے ارسال کئے گئے اعداد و شمار اور دیگر معلومات کے مطابق سندھ میں یہ سلسلہ 2005 ء سے شروع ہوا جو 2017ء تک زور و شور سے جاری رہا‘ اس عرصے کے دوران جن برسوں میں سندھ کے سیاسی کارکنوں کی گمشدگیاں ہوئیں‘ وہ2010 2011, 2012, 2013, 2016 ,2015, اور 2017 ء ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق زیادہ تر سندھ کی چند خاص قوم پرست تنظیموں کے کارکنوں اور رہنمائوں کو گھروں سے یا مختلف علاقوں سے اغوا کرکے گم کیا گیا ان تنظیموں میں جئے سندھ قومی محاذ کے مختلف گروپ‘ سندھ یونائیٹڈ پارٹی(ایس یو پی)‘ جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مختلف گروپ‘ جئے سندھ تحریک‘ جئے سندھ لبرل فرنٹ‘ سندھ ترقی پسند اور سندھ سجاگی فورم تنظیموں کے نام بتائے جاتے ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق 2005ء سے 2017 ء تک کے عرصے کے دوران 551 کارکنوں کو سندھ کے مختلف علاقوں سے اغوا کرکے غائب کردیا گیا‘ ان میں سے مختلف اوقات میں سرحد کے مختلف علاقوں سے تقریباً 25 لوگوں کی تشدد زدہ لاشیں ملیں جن کو تشدد کرکے یا گولی مارکر ہلاک کیا گیا تھا۔ ان اطلاعات کے مطابق جو 551لوگ اغوا ہوئے تھے ان میں سے تقریباً 261 لوگ مختلف وقفوں کے بعد رہا ہوکر گھروں کو پہنچے، جن لوگوں کی لاشیں ملیں ان کے بارے میں مختلف سیاسی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کو پراسرار طور پر اغوا کیا گیا اور ان کو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے ذریعے قتل کیا گیا۔ ان میں سے جن کے بارے میں کچھ تفصیلات ملی ہیں ان کے مطابق سمیع اللہ کلہوڑو کو 30 نومبر 2004ء کو اغوا کیا گیا جس کی تشدد شدہ لاش 5 فروری 2005ء کو ملی‘ ذوالفقار کولاچی کو 2011ء میں بولہاڑی اسٹیشن پر بولان میل سے اغوا کیا گیا‘ اسے 40/50 دنوں کے بعد پہلے رہا کیا گیا مگر بعد میں اسے مبینہ طور پر قتل کردیا گیا‘ آصف پنہور کو 2014ء میں‘ افضل پنہور کو 2012ء میں‘ برکت چانڈیو اور پریم دیوان کو 2013 ء‘ منیر چولیانی کو 2013 ء سجاد مرکھنڈ کو 2013 ء‘ امیر کھاور کو 2013ء‘ انیس سومرو کو 2014ء میں‘ وحید لاشاری کو 2014ء میں‘ روشن بروہی کو 2014ء‘ راجا ڈھر بھنبھرو کو 2015ء میں‘ سلمان واڈھوکو 2014ء میں‘ شکیل کونہارو کو2013ء میں‘ سرویچ پیرزادو 2014ء میں‘ پریل شاہ 2014ء میں‘ صاحب خان گھوٹو کو 2014ء میں‘ ذاکر بوزدارکو 2016ء میں قتل کرکے ان کی لاشیں مختلف علاقوں میں پھینک دی گئیں۔ ان ذرائع سے جو اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ کیسز میں قوم پرست رہنمائوں اور کارکنوں کے عزیزوں کو بھی گرفتار کیا گیا جبکہ کچھ صحافیوں ، وکیلوں اور ڈاکٹروں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کی تفصیلات یہ ہیں کہ ایک شخص انعام عباسی جو ایک پبلشر ہیں کو 8فروری 2017 ء کو سچل گوٹھ کراچی سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے 14 جون 2018 ء کو رہا کردیا گیا۔ محمد صدیق جویو جو ڈگری کالج سیہون میں لیکچرر تھا کو 8 اکتوبر 2017ء کو جامشورو سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے گھر بھیج دیا گیا۔ دیدر امرت شابرانی جو صحافی ہیں کو 2017ء میں کراچی سے گرفتار کیا گیا اور بعد میں اسے 2018ء میں رہا کردیا گیا۔ فتح محمد کھوسو جو ٹیچر ہیں کو پہلی جنوری 2016 ء کو کشمور کندھ کوٹ سے گرفتار کیا گیا مگر اس کے بارے میں اب تک متضاد اطلاعات ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق وہ رہا کردیئے گئے کچھ کے مطابق وہ اب تک رہا نہیں کئے گئے۔ حیدر کھوسو جو صحافی ہیں کو 11 اکتوبر کو گائوں گلاب لغاری‘ ضلع بدین سے گرفتار کرکےجیل میں قید کردیا گیا‘ موہن مینگواڑ جو مہران یونیورسٹی کے طالب علم ہیں کو پہلی جنوری 2014 ء کو گرفتار کیا گیا مگر اس کی رہائی کے بارے میں ابھی تک متضاد اطلاعات ہیں۔ فضیلہ سرکی جو ٹھل‘ ضلع جیکب آباد کی رہنے والی ہیں،کو پہلی جنوری 2009 ء کو گرفتار کیا گیا اور اس کی رہائی کے بارے میں بھی اب تک متضاد اطلاعات ہیں۔ فتح محمد کھوسو‘ کندھ کوٹ‘ کشمور میں ڈاکٹر ہیں کو پہلی جنوری 2016ء کو گرفتار کیا گیا اور اس کی رہائی کے بارے میں بھی متضاد اطلاعات ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین