• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے دورِ سیاست کو پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازع اور پُر اسرار دور کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اور جیسے جیسے وقت گزرے گا ایسے عجیب و غریب اور محیرالعقول واقعات سامنے آئیں گے جن کے بارے میں تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا ان کی ذاتی زندگی ، قول و فعل کے تضادات ، سیاسی نظریات، محسن کشی ، انا ، تکبر اور ضد نے انکی سیاست اور پاکستانی معاشرے پر جو تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں ۔ ان کا تذکرہ برسوں تک ہوتا رہے گا۔ عمران خان کے قومی سیاست میں آنے اور لائے جانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ فوجی اشرافیہ کے سیاستدان مخالف نظریات کے سویلین ترجمان تھے۔ فوجی ڈکٹیٹر وں کی طرح وہ سیاستدانوں کو ہر برائی کی جڑ سمجھتے تھے۔ گویا وہ غیر سیاسی سیاستدان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے علاہ ہر سیاستدان کو چو ر اور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اپنے پونے چار سالہ دورمیں وہ کسی سیاستدان کے خلاف کرپشن کا کوئی بھی جرم ثابت کرنے میں ناکام رہے اُلٹا ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے ان کے دور کو پاکستان کا کرپٹ ترین دور قرار دیاجس میں کرپشن 24درجے تک بڑھ گئی تھی۔ انتظامی بدعنوانی اور معاشی گراوٹ اپنی انتہا کو پہنچ گئی، میڈیا اور سیاسی مخالفین کو مہینوں بلکہ سالوں تک پابند سلاسل رکھا گیااور حتی الامکان کوشش کی گئی کہ ان کی ضمانتیں نہ ہوں۔ آج دو دن جیل میں گزار کر اور دھاڑیں مارکر روتے ہوئے شہباز گل ، فواد چوہدری اور شیخ رشید اپنے مخالفین کے خلاف کی گئی انتقامی کارروائیوں کو یاد کریں۔ آج بغاوت کے جس مقدمے کی وجہ سے فواد چوہدری خو د کو نیلسن منڈیلا قرار دے رہے ہیں اور واویلا کر رہے ہیں کہ ہمارے دور میں کسی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ نہیں بنایا گیا تھا۔ اس سے بڑا کوئی جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ 2019میں میر ے اپنے بیٹے ڈاکٹر عمار علی جان کے خلاف نہ صرف بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا بلکہ پولیس نے چادر اور چار دیواری کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے سحری کے وقت میرے بیٹے کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اسے گرفتار کیا۔ وہ آج بھی یہ مقدمہ بھگت رہا ہے۔ وہ کیمبرج سے تعلیم یافتہ ایک پروفیسر ہے جس کا جرم یہ ہے کہ وہ اس گلے سڑے نظام کا ناقد ہے ۔ ہم اگر عمران خان کے قول و فعل کے تضادات کو دیکھیں تو اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شیشے کے گھر کا ایساباسی یا قیدی ہے ۔ جو ہر وقت دوسروں پر دشنام اور کردار کشی کے پتھر پھینکتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ کسی بھی لحاظ سے اپنے ہی قائم کردہ ان معیاروں پر پورا نہیں اترتا۔ جس کا وہ چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہوتا ہے۔ کرپشن کا حال آپ نے دیکھ لیا کہ ان کے دور میں نہ صرف کرپشن انڈیکس میں 24درجے تک اضافہ ہوا بلکہ گوگی گینگ ، چینی ، آٹے ، ادویات ، ممنوعہ فنڈنگ ، چندے کی رقم میں خورد برد ، مالم جبّہ، پشاور میٹرو، راولپنڈی رنگ روڈ اور ملین ٹری جیسے بے شمار اسکینڈل سامنے آئے اور جیسے جیسے وقت گزرے گا۔ ان کے مزید ایسے کارنامے سامنے آئیں گے کیونکہ آپ کے دور میں 21ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا۔ جو پاکستان کی تاریخ کے ستر سالوں میں لیے گئے قرضے کا تقریباََ 80فیصد بنتا ہے۔ لیکن اس کا مصرف کہیں نظر نہیں آتا۔ باقی لیے گئے قرضے جو بقول عمران خان کرپٹ سیاست دانوں نے لیے تھے، اس میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سڑکوں کے جال بھی بچھائے گئے اور بجلی کے کارخانے بھی لگائے گئے۔ لیکن پچاس لاکھ نوکریوں اور ایک کروڑ گھروں کی بڑ مارنے والے عمران خان اور اس کے حواریوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے کتنے گھر بنائے اور کتنی نوکریاں دیں تو جواب دیا جاتا ہے ۔ ہم بے اختیار تھے اصل اختیار تو کسی اور کے پاس تھا۔ حالانکہ آپ دعویٰ کرتے تھے کہ بے اختیار اقتدار لینے سے بہتر ہے کہ میں اقتدار نہ لوں ، بالکل اسی طرح جس طرح آپ فرماتے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے بہتر ہے کہ میں خود کشی کرلوں ۔ آپ نے تو خود کشی نہیں کی البتہ آپ نے جن شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور پھر اسکی خلاف ورزی کی۔ اس کے نتیجے میں آج ملکی معیشت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ پاکستان کے عوام خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ پھر آپ کے ایما پر آپ کے وزیرِ خزانہ نے آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ یہ ہے آپ کی حب الوطنی ؟ ۔ آپ طالبان کے ساتھ گفت و شنید پر زور دیتے ہوئے یہ تو فرماتے ہیں کہ دنیا کا ہر مسئلہ ڈائیلاگ سے حل ہو سکتا ہے اور وہ سیاستدان ہی نہیں جو ڈائیلاگ سے فرار حاصل کرے لیکن اپنی اپوزیشن جو کہ بذات خود عوام کے منتخب نمائندے ہیں ان سے ڈائیلاگ تو کیا ، ہاتھ تک ملا نے کے روادار نہیں۔ آپ ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیںاور ہر ایک کو انصاف مہیا کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن آپ نہ صرف دوسروں کے خلاف نا انصافی کے لیے نیب چیئرمین کی نازیبا وڈیو کے ذریعے اسے بلیک میل کرتے ہیں۔ بلکہ خود کسی بھی عدالتی حکم کی تعمیل کرنا تو کجا عدالتوں میں حاضر ہونا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ کیا ریاستِ مدینہ کے حاکم ہونے کے دعویدار کا وہی کردار ہونا چاہیے جو آپ کے متکبرانہ اور پر رعونیت رویے کے باعث ہے جو آپ کے جتنا قریب آیا وہ ہمیشہ کے لیے دو ر ہوگیا۔ کیونکہ اس پر آپکی شخصیت کے دوہرے معیار آشکار ہو گئے۔ آپ کے فاشسٹ رویے کے متاثرین کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ آپ کے سیاسی مخالفین میں کسی کے پاس آئین سازی اور کسی کے پاس موٹرویز بنانے کا کریڈٹ ہے آپ بتائیں گے کہ آپ نے اپنے دورِ حکومت میں پاکستانی تاریخ کے 80فیصد قرضے لے کر عوام کے لیے کوئی ایک بڑا کام کیا ہے؟ عمران خان اور ان کے شخصیت پرست حامیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والوں کے اپنے گھر بھی زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رہتے ۔

تازہ ترین