اردو شاعری کی وہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئےسکوت کی چادر اوڑھ کر سو گئی ہے جو محبت کی چاشنی میں گندھی ہوئی تھی۔امجد اسلام امجد محبت کا دوسرا نام تھے۔ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی محبت آمیز اور محبت آموز تھی۔وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے۔امجد صاحب کی شخصیت اکہری نہیں تھی بلکہ گہری تھی جس میں ایک ہی وقت میں کئی دنیائیں پنہاں تھیں۔سب سے پہلے تو وہ اردو ادب کے ایک مقبول اور بہترین استاد تھے۔شاعر وہ فطرتا تھے۔یہ جوہر اللہ تعالی نے ان میں پیدائش کے وقت ہی رکھ دیا تھا۔وہ غزل اور نظم دونوں کے شاعر تھے۔ ان کی غزل نظم سے بہتر ہے اور نظم غزل سے بہتر۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں اصناف پر قادر تھے۔ان کی کتنی ہی غزلیں مقبول عام ہوئیں۔نظم سننے یا پڑھنے کی چیز تو ہے لیکن یہ غزل کے اشعار کی طرح زبان زد عام کم ہی ہوتی ہے لیکن امجد صاحب نے یہ کرشمہ بھی کر دکھایا۔ان کی بہت سی نظمیں بھی مقبول ہوئیں۔وہ جب کسی مشاعرے یا ادبی تقریب میں ہوتے تو حاضرین ان سے ان کی مشہور نظمیں فرمائش کر کے سنتے۔میں اکثر اس بات پر حیران ہوا کرتا تھا کہ امجد صاحب کو اپنی لمبی لمبی آزاد نظمیں یاد کس طرح رہ جاتی ہیں۔وہ بہت سہولت اور روانی سے اپنی طویل آزاد نظمیں پڑھتے جاتے اور ہم سنتے جاتے۔انھیں داد ملتی تو احساس ہوتا تھا کہ محبوبیت کیا ہوتی ہے۔امجد صاحب شاعروں کے تو محبوب تھے ہی ادب کا معمولی ذوق رکھنے والوں کے بھی محبوب تھے۔وہ شاعری کا ایک مستند استعارہ تھے۔میں نے کبھی کوئی عام آدمی نہیں دیکھا جس نے امجد اسلام امجد کا نام سن کر یہ کہا ہو کہ اس نے آج سے پہلے ان کا نام نہیں سنا۔ امجد صاحب نے ٹیلی ویژن کیلئے اس زمانے میں منفرد اور مقبول ڈرامے لکھے جب بڑے بڑے ادیب ان کے ارد گرد موجود تھے۔ایک ڈراما ’’وارث‘‘تھا انھوں نے ایسا لکھا کہ اس کی وجہ سے،شام ہوتے ہی پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے کوچہ و بازار سنسان ہو جایا کرتے تھے۔اس ڈرامے کی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ امجد صاحب نے اس میں اپنی زمین اور ثقافت کے ہر وارث کی کہانی عام اور سادہ زبان میں، بے ساختہ اور سچے کرداروں کے توسل سے بیان کی تھی۔اس کے بعد لگتا نہیں تھا کہ امجد صاحب کوئی اتنا ہی مقبول ڈراما لکھ پائیں گے لیکن انھوں نے مزید ڈرامے لکھے اور اپنے معیار کو برقرار رکھا۔امجد صاحب لاہور کیا پورے پاکستان میں منعقد ہونے والی ادبی تقریبات کی جان تھے۔جس تقریب میں وہ موجود ہوتے وہ سج جاتی۔ان کا نام کامیابی کی ضمانت تھا۔وہ محفلوں کی جان تھے۔ہر طرح کے لوگوں میں یوں گھل مل جاتے کہ اجنبیت کا شائبہ تک نہ ہوتا۔نئے شاعروں اور ادیبوں سے شفقت کا رویہ رکھتے۔انھیں بیٹا کہ کر مخاطب کرتے۔میرا ان سے تعلق 1990سے ہے۔میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘کے ادبی صفحے کا نگراں تھا، سو سارے بڑے شاعروں اور ادیبوں سے میرا رابط رہتا تھا۔کبھی وہ مجھے اپنے پاس بلا لیتے کبھی وہ میری طرف آ جاتے۔1993میں امجد صاحب نے روزنامہ’’ پاکستان ‘‘ کے فورم میں منعقد ہونے والے نوجوانوں کے مشاعرے کی صدارت کی۔ 1994میں میرےمجموعہء غزل’’منظر بدل گئے‘‘ کی تعارفی تقریب ریگل چوک کے قریب دیال سنگھ مینشن میں واقع ’’شیزان‘‘ ریسٹورینٹ میں ہوئی تو امجد صاحب بطور خاص تشریف لائے اور میری شاعری کے بارے میں ایک مفصل مضمون پڑھ کر میرا حوصلہ بڑھایا۔اس کے بعد ان کے ساتھ تعلق بڑھتا گیا۔ان کے بیٹے علی ذیشان کی شادی ہوئی تو مجھے خود فون کیا اور گھر کا پوسٹل ایڈریس مانگا تاکہ دعوت نامہ بھیج سکیں۔میں نے کہا بھی کہ آپ مجھے شادی گھر کا نام اور محل وقوع بتا دیجئے میں آ جاوں گا لیکن انھوں نے بالاصرار مجھ سے میرے گھر کا پتا لیا اور دعوت نامہ بھیجا۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے کتنے ہی مشاعرے میں نے ان کی صدارت میں پڑھے۔ لاہور سے باہر کے مشاعروں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوا۔ یہاں ایک بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ نوے کی دہائی میں امجد صاحب سے ایک تقریب میں ملا تو ان کے ساتھ کچھ تصویریں بھی بنوائیں۔یہ تصویریں جب ملتان میں میرے ایک عزیز نے دیکھیں تو اس نے کہا کہ یہ جعلی تصویریں ہیں۔تم بھلا امجد اسلام امجد تک تک کیسے پہنچ سکتے ہو؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امجد صاحب آج سے تین دہائیاں قبل بھی شہرت کی بلندیوں پر تھے۔وہ ادبی اور شعری ذوق رکھنے والے ہر شخص کے ہیرو اور آئیڈیل تھے۔میرے نزدیک وہ آج بھی ہمارے ہیرو اور آئیڈیل ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔