مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میری بہو، علینہ کو شادی سے پہلے گھر میں بلّیاں پالنے کا بہت شوق تھا۔ گزشتہ رمضان المبارک میں بہو کے گھر والوں نے ہمیں دعوتِ افطار پر مدعو کیا۔ اُن کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ ایک بلّی نے دو بچّے دیے۔ دونوں ہی بڑے خُوب صُورت تھے، اُن میں سے ایک بچّہ ہمیں پسند آگیا، تو اُنھوں نے اُسے ہمارے حوالے کردیا، جسے لے کر ہم گھر آگئے اور اُس کا نام اسکوبی رکھ دیا۔
بہت پیارا، سرمئی دھاریوں والا معصوم سا بچّہ تھا۔ پھر گھر کے سب افراد کو اس سے بے حد پیار اور انسیت ہوگئی، سب ہی اُس کا بہت خیال رکھتے۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، اس کی صحت قابلِ رشک ہوتی چلی گئی۔ اُس کی غیر معمولی جسامت اور قدکاٹھ دیکھ کر لوگ اسے ’’شیر کا بچّہ‘‘ کہتے۔ اسکوبی کو گھر میں رہنا پسند تھا۔
ہم کہیں گھومنے پِھرنے یا شاپنگ پر جاتے تو اُسے ساتھ لے جاتے، مگر جب گھر آتے، تو اس کی کوشش ہوتی کہ سب سے پہلے اُسے شاپنگ کا سامان دکھایا جائے۔ شاپرز میں جھانک جھانک کر دیکھتا اور خوش ہوتا۔ کھانا کھاتے تو اس کی خواہش ہوتی کہ اُسے بھی ساتھ کھلایا جائے۔ سب کے ساتھ سوجاتا۔ واش روم استعمال کرتا تھا۔ ہم ہر ہفتے اُسے نہلاتے تو مزید نکھر جاتا۔ اسے دوسری بلّیوں، بلّوں سے دوستی کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ گلی میں دوسری بلّیاں، بلّے آتے تو دروازے کے نیچے سے انہیں دیکھتا رہتا۔
اُن ہی دنوں بلّی کا ایک چھوٹا سا بچّہ ہمارے بیرونی دروازے کے نیچے سے اندر آنے لگا، تو اُسے دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔ اس سے محبت کا برتائو کرتا، اپنے حصّے کا کھانا پینا دے دیتا اور اسے کچھ نہ کہتا، لیکن دوسری بلّیوں، بلّوں کو دیکھ کر غرّاتا اور بھگادیتا۔ پچھلے سال سردیوں میں بلّی کا وہ بچّہ بیمار ہوگیا۔ ہم اُسے اسپتال لے گئے، مگر جاں بر نہ ہوسکا، تو اُس کی جدائی میں اسکوبی بھی بیمار ہوگیا۔ کئی دن افسردہ اور غم گین رہا۔ اب اس کا کوئی دوست نہیں رہا تھا،گھر کے باہر جو بلّیاں تھیں، اُن سے دوستی نہ کرتا، کیوں کہ وہ صاف ستھرے ماحول میں پلا بڑھا تھا۔ میری بیگم اُسے بیٹا کہتیں، تو وہ بھی میائوں میائوں اس طرح کرتا کہ لگتا ’’ممّا،ممّا‘‘ کہہ رہا ہو۔
کھانا ختم کرلیتا تو اسی طرح باقاعدہ آواز لگا کر بتاتا کہ کھانا ختم ہوگیا ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے آنیال کا تو وہ دیوانہ تھا، اس کا نام بھی بڑے واضح طور پر لینے لگا تھا۔ آنیال بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ میری بیگم جب کہتی کہ جائو، آنیال کو بلاکر لائو، تو بھاگ کر اوپر اس کے کمرے میں جاتا اور اسے بتانے کی کوشش کرتا کہ نیچے بلارہے ہیں۔ اسی طرح اسے میری بیٹیوں مشعال اور رافیال کے ناموں کی بھی خوب پہچان تھی۔ کبھی اپنے سامنے نہ پاکر میری بیگم آواز دیتیں، تو فوراً میائوں میائوں کرتا ہوا آجاتا۔
اُسے شاید بّلی کے بچّے سے بچھڑنے کا شدید دُکھ تھاکہ اس کی موت کے بعدہی سے وہ بجھا بجھا سا رہنے لگا۔ پھر کچھ عرصے بعد بیمار پڑگیا، تو اسے ڈاکٹر کے پاس لےکر گئے، جہاں الٹراسائونڈ، ای سی جی، یورین، بلڈ ٹیسٹ وغیرہ کے بعد ڈاکٹرنے بتایا کہ اس کے گردے فیل ہوگئے ہیں اور بچنے کے دس فی صد چانس ہیں۔ پھر بھی ہم آخری وقت تک اُس کا علاج کرواتے رہے کہ اللہ پاک اس کی بیماری دُور کردے، میرے بچّوں نے اسکوبی کے علاج میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔
مگر وہ جاں بَر نہ ہوسکا اور 13اکتوبر 2022ء کو ہم سب کو اُداس کرکے اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد ہم اُسے چادر میں لپیٹ کر قبرستان لے گئے، خصوصی طور پر گورکن سے قبر بنوائی اور دفنایا۔ اب جب بھی قبرستان جانے کا اتفاق ہوتا ہے، تو اُس کی قبر کے پاس بہت سی بلّیاں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ اور ہمیں اب بھی گھر میں اس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا ذکر آتا ہے، تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ (کمال گوہرخان، گڑھی شاہو، لاہور)