• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو ہم سے جدا ہوئے کئی برس بیت گئے۔ گزشتہ دنوں اس عظیم رہنما کی برسی کے موقع پر اسرائیلی فوج نے غزہ میں فائرنگ کرکے2فلسطینی بچوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ اسی روز راکٹ حملے میں ایک فلسطینی ڈاکٹر اور ایک سیاسی کارکن زخمی ہوگئے۔ یاسر عرفات کی برسی پر فلسطینی صدر محمود عباس نے ان کے مزار کے احاطےمیں کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم اس دن کا شدت سے انتظار کررہے ہیں جب بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت بنے گا اور یاسر عرفات کی وصیت کے مطابق انہیں بیت المقدس میں سپردخاک کیا جائے گا۔‘‘ انہوں نےیہ بھی کہا کہ یہ مزار عارضی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔

عظیم فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی بات شروع کرنے سے پہلے میں عظیم یروشلم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اسرائیل نے1967کی عرب، اسرائیل جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا اس کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس شہر کو اسرائیل میں شامل کرلیا۔ امریکہ کی یہودی لابی نے ریپبلکن پارٹی کے ارکان کے ذریعے1996ء میں امریکی کانگریس میں یہ قرارداد منظور کروائی کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردے گا۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے پہلے انتخابات کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے غزہ میں1996کو یاسر عرفات نے فلسطینیوں کو یہ خوش خبری سنائی تھی کہ بہت جلد ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔ 1993ء میں جب ’’امن کے بدلے میں زمین‘‘ مذاکرات کا فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سلسلہ شروع ہوا تو عربوں اور مسلم ممالک کو امید تھی کہ فلسطینیوں کو ان کا حق مل جائے گا اوران کے مقدس مقامات دوبارہ ان کے قبضے میں آجائیں گے جن پر ایک فلسطینی حکومت قائم ہوگی لیکن یہ تمام باتیں سراب ثابت ہوئیں، فلسطینی آج بھی ایک آزاد فلسطینی مملکت اور یروشلم کا خواب دیکھ رہے ہیں ،میرے حساب سے یہ سب عربوں کی کمزوری ہے، عرب اگر اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کمربستہ ہوجائیں تو امریکہ کوماننا ہی پڑے گا، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ عربوں کی ناراضی سے امریکہ کو ہر سال ایک ٹریلین (کھرب) ڈالر سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کا امریکہ کی معیشت میں 700 بلین (ارب) ڈالر سرمایہ لگا ہوا ہے مگر... یہ اگر مگر ہی دراصل فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں نہیں لاسکا۔ آیئے تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھتے ہیں۔ 1917ء میں جب برطانیہ بالفور اعلامیہ کے ذریعے یہودی مملکت کا اعلان کررہا تھا تواس وقت یہودی مملکت کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان نہ کیا گیا۔ حالات نے ایک کروٹ لی۔ 1967کی جنگ نے عربوں کو شکست سے دوچار کردیا۔ جولائی 1971 میں اردن کے ہاتھوں (یہ جنرل ضیاء الحق کا کارنامہ تھا) فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد 1976 میں لبنان میں پی ایل او اور لبنانی فوج میں خون ریز تصادم کے بعد جون1980میں مصر کے انورسادات کی طرف سے پی ایل او کا اثر و رسوخ ختم کردینے کے بعد امریکہ اور یورپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک فلسطینیوں کو ایک حد میں رکھنا چاہتے ہیں۔

یاسر عرفات کا ذکر آئے گا تو یہ بات بھی کہی جائے گی کہ عالمی تاریخ ایسی شخصیات کے ذکر سے بھری پڑی ہےجو اپنے وطن کی آزادی کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے وطن کی خاطر جان قربان کردی اور بہت سوں کو دوران جدوجہد موت نے آ دبوچا لیکن وہ اپنی موت سے آزادی کی جنگ کو نئی زندگی عطا کرگئے۔ عرفات کی موت سے فلسطینی ایک ممتاز قائد سے محروم ہوگئے ،اس سے بڑی محرومی جو محسوس ہورہی ہے، وہ قیادت کا خلا ہے ہر چند کہ محمود نے وہ خلا پر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن جو عوامی مقبولیت یاسر عرفات کے حصے میں آئی وہ موجودہ لیڈروں میں سے کسی ایک کوبھی حاصل نہیں ۔ یاسر عرفات اپنی75برس کی زندگی میں27سال جلا وطن رہے لیکن ان کی عزت و مقبولیت کسی دور میں کم نہ ہوئی۔ عبدالرئوف محمد یاسر المعروف یاسر عرفات اس قُقنُس کی مانند تھے جو اپنی راکھ کے ڈھیر سے ابھرتا ہے اور پوری دنیا کو اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔ عرفات چاہے جلاوطن رہے یا اپنی ہی پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں محصور و مقید، اسرائیل نے ان کے قتل کی سازشیں کی ہوں یا ان کے ہیڈ آفس کو بلڈوزروں سے زمین بوس کرنے کی کوشش، یاسرعرفات پوری حوصلہ مندی کے ساتھ ہر بحران سے ابھرتے رہے اور مرتے دم تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ یاسر عرفات کی بیوہ محترمہ سوہا عرفات نے شوہر کی وفات کے تین برس بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہا کہ ’’یاسر عرفات شہید تھے، جب وہ کوما میں چلے گئے تو ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا کہ کومے سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ان سے بات چیت کرتے رہنا چاہئے،جس پر میں یاسر عرفات کی پسند کی باتیں کرتی رہی۔ فلسطینی، مقبوضہ بیت المقدس ،ان کے بچپن، ان کی والدہ کی باتیں لیکن عرفات کومے سے نہ نکل سکے۔‘‘ سوہا عرفات ان دنوں اپنی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کے ہمراہ مالٹا میں مقیم ہیں اور پانچ ہزار یورو ماہانہ پر بمشکل گزارا کررہی ہے۔ یہ رقم ’’فلسطینی اتھارٹی‘‘ پنشن کے طور پر ادا کرتی ہے۔ یہ اتھارٹی ریڈ انڈینز کے ان سرداروں کی طرح ہے جو سارے سردار ہیں مگر کوئی عام فلسطینی نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین