آئی ایم ایف (IMF)کے کچھ خاص لوگ پاکستان کےساتھ بامقصد مذاکرات کرنے کے بعد واپس جا چکے ہیں۔انہوں نے ہی اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کو کتنی رقم کی ضرورت ہے۔ اس بار کچھ مذاکرات اسحاق ڈار کی موجودگی اور پاکستان میں ہوئے۔ ماضی میں یہ مذاکرات دبئی میں ہوتے رہے ۔ 2018ء کے انتخابات کےبعد جنرل باجوہ کی مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا اور عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا تو اس وقت عسکری دوستوں کی مشاورت کے بعد پی ٹی آئی کے اسد عمر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیلئے امریکہ گئے تھے۔ ایک کے بعد ایک بات چیت کے دور ہوئے اور اسد عمر نے آئی ایم ایف پر یہ واضح کر دیاکہ وہ اپنی سفارشات وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے روبرو پیش کریں گے اور اس حوالے سے موجودہ حکومت ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ آئی ایم ایف اس وقت بھی اسد عمر کے کردار سے مطمئن نہ تھا۔ آئی ایم ایف نے ساری صورتِ حال سے پاکستان میں عسکری مہربانوں کو آگاہ کیا۔ اس کے بعد عسکری مہربانوں نے عمران خان کو باور کرایا کہ اسد عمر کو ایسے معاملات کا تجربہ نہیں اور سابق سپاہ سالار قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کو حفیظ شیخ کے نام پر یقین دہانی کرائی کہ وہ پہلے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ وہ سابق دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بھی خصوصی تعلق اور رابطہ رکھتے تھے اور ہمارا دوست ملک امریکہ ان پر بھرپور اعتماد کرتا تھا پھر جس طرح راجہ سکندر سلطان کو جنرل باجوہ کی سفارش پر الیکشن کمیشن کی باگ ڈور دی گئی تھی ویسے ہی حفیظ شیخ کو سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ بنایا گیا۔ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف سے بات چیت کی اور ایک معاہدہ طے پاگیا۔ ان مذاکرات کے بعد جب ان کی سفارشات پر عمل کا وقت آیا توآئی ایم ایف بھی مجبور تھی اور عمران خان نے بھی وبا کے دنوں میں عوام کو مایوس نہ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے قرضے آئی ایم ایف کے بغیر ادا کرسکتا ہے۔ اس وقت کی سرکار آئی ایم ایف کو اپنا نجات دہندہ خیال کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط بھی ایک مستحکم اور ناقابلِ تسخیر پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں۔ اگر انتخابات کروا دیئے جاتے ہیں اور جو بھی حکومت آتی ہے اس کیلئے یہ بڑا مشکل ہوگا کہ وہ عوام کی مشکلات میں کمی کر سکے۔ عوام نے اگرسابق وزیر اعظم کو موقع دیا تو پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کیلئے معیشت کی بحالی ایک بہت بڑا امتحان ہوگاا ور ملک کی سمت اگردرست ہو بھی جائے تو ضروری نہیں عمران خان کی پارٹی جیت سکے۔ پھر ضروری ہے کہ موجودہ سرکار ہنگامی طور پر اپنے اخراجات میں کمی کرے اور ہماری نو کر شاہی کی شاہانہ مراعات میں کمی کرنا بھی ضروری ہے اور جن لوگوں نے بھی خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون طریقوں سے دولت کمائی ہے ان کا احتساب بھی لازمی ہوگا۔ یہ پاکستان کے پاس آخری موقع ہے۔ ملک کے تعلیمی نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔ صوبوں میں بھی بنیادی طورپر بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر رائج کیا جائے۔ سرکاری افسر اپنے فرائض کے سلسلہ میں اصول اور قانون کو مدنظر رکھیں اور عدالتی نظام میں ایک بار پھر بڑی تبدیلی ضروری ہے۔ جو فیصلے دیئے جاتے ہیں انکے بھی کچھ اصول اورضابطے مرتب کرنے ہوں گے۔ فوج کے حوالے سے ہماری سیاسی اشرافیہ جو کچھ بیان کرتی ہے اس کیلئے بھی ضابطے مرتب کرنا لازمی ہوچکا ہے اور ہماری صحافت اور سوشل میڈیا پر قانون کا اطلاق لازمی کیا جائے۔ آئی ایم ایف پر یہ واضح کردیا جائے کہ انتخابات کے بعد ہی آئی ایم ایف کی بات سنی اور مانی جا سکتی ہے۔ اس سرکار نے جو فضول خرچی کی ہے اس معاملے پر بھی تفتیش اور تحقیق ضروری ہے۔ پاکستان کے لوگ قربانی دے کر آئی ایم ایف کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور قربانی سب کو دینا ہوگی۔
عمران خان جب ملک کے اہم اداروں کو معیار کے مطابق اپنے کردار سے مطمئن نہ کرسکے تو اپوزیشن کو میدان میں اتارا گیا اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور عمران خان کو جمہوریت کے خنجر سے ڈرا کر اپوزیشن میں کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے جمہوریت کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات سرکار اور قومی اہم اداروں کو پسند نہ آئی۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس ساری کارروائی کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری نے خصوصی کردار ادا کیا۔ ان کا امریکی انتظامیہ میں اب بھی بہت رسوخ ہے۔ انہوں نے اپنے سپوت کو وزیر خارجہ بنوایا اور ان کی مشاورت سے اسحاق ڈار کو عدالتوں سے معافی ملی اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوایاگیا۔ ان کی چالیں بھی ملک کی معیشت کو بہتر نہ بنا سکیں۔پھر سابق وزیر اعظم نے بھی میدان نہ چھوڑا اور عوام سے رابطہ رکھنے میں اپنا سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ جب نئے سپاہ سالار کے نام پر مشاورت شروع ہوئی تو اس میں انہوں نے کوشش کی کہ انتخابات کے بعد اس کا فیصلہ کیاجائے، مگر آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اپنا ہم نوا بنایا اور فیصلہ ہوا فوج جو نام دے گی ان میں سے فیصلہ ہوگا اور ایک سینئر جنرل کو نیا سپاہ سالار بنا دیا گیا اور خیال تھا کہ سابق سپاہ سالار کا یہ فرمان کہ فوج سیاست سے دور رہےگی اس پر عمل شروع ہوجائے گا مگر میاں شہباز شریف کی جمہوری سرکار نے ایسے فیصلے کئے جو عوام کیلئے پریشان کن تھے۔ پاکستان کی معیشت شدید مندی کا شکار ہوئی اور یوں لگنے لگا کہ ملک میں مہنگائی اور سیاسی بے چینی سے تنگ آئے عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف سے بات چیت شروع ہوئی اور آئی ایم ایف نے شرط رکھ دی کہ معاہدے پر تمام فریقین کا راضی ہونا ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)