• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 10)

لال قلعے سے نکلے، تو اگلی منزل اندرا گاندھی میموریل تھی۔جواہر لال نہرو روڈ پہ دائیں ہاتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے سوِک سینٹر کی بلند و بالا عمارت ہے، جسے ہم بغوردیکھ رہے تھے کہ ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرائیور نے ایسے متوجّہ کیا، جیسے کسی سوتے ہوئے کو اٹھاتے ہیں۔’’یہ دیکھیں جی، یہ رام لیلا ہے۔‘‘اس نے کہا۔ ’’رام لیلا کیا…؟‘‘ ہم نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’سر جی، رام لیلا میدان! جہاں انّا ہجارے (ہزارے)جی نے بھوک ہڑتال کی تھی۔‘‘اس نے بائیں ہاتھ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جب ہم نے دیکھا، تو بائیں ہاتھ ایک بہت بڑا میدان نظر آیا۔ 

مغل فوج کے ہندو سپاہی جمنا کنارے دسہرے کا تہوار مناتے اور رام لیلا کا کھیل کھیلتے تھے۔ پھر یہ رام لیلا کا کھیل یہاں منتقل ہو گیا۔ یہیں اسی میدان میں1961 ء میں جواہر لال نہرو نے ملکہ الزبتھ کا استقبال کیا تھا۔ یہیں پہ ایک لاکھ آدمیوں کا انبوہِ کثیر اکٹھا کر کے، کے جے پرکاش لوک نائک نے اندرا گاندھی کے خلاف 1975 ء میں تحریک کا آغاز کیا ۔یہیں1977 ءمیں کانگریس سے منحرف سینئر رہنماؤں نے جنتا پارٹی کی بنیاد رکھی ، جن میں جگ جیون رام، مرار جی ڈیسائی، اٹل بہاری واجپائی، چرن سنگھ اور چندر شیکھر جیسے بڑے قد کاٹھ کے رہنما شامل ہیں۔ پھر کرپشن کے خلاف انا ہزارےکی تحریک کا مرکز و محور بھی یہی میدان رہا، اسی میدان میں انہوں نے کرپشن کے خلاف میدانِ جنگ سجایا۔2011ءمیں سوامی رام دیو نے کالا دھن واپس لانے کے لیےاسی میدان میں بھوک ہڑتال کی اور 2015ء میں یہیں دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال نے حلف اُٹھایا تھا۔

صفدر جنگ روڈ پہ اندرا گاندھی میموریل میوزیم کی عمارت آگئی۔ یہ دراصل اندرا گاندھی کی رہائش گاہ تھی۔ ٹیکسی اندرا گاندھی میموریل کے باہر جارُکی۔ہم لوگ اُترے اور میوزیم کے اندر داخل ہو گئے، جو ایک سفید رنگ کی سادہ سی، مگر پرشکوہ عمارت میں قائم تھا۔عمارت سر سبز و شاداب گھاس کے قطعوں اور گھنے درختوں میں گِھری ہوئی تھی۔ایک سُرخ پتھر کے روش پہ چلتے ہوئے ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندرا گاندھی کے گھر میں داخل ہو گئے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد یہ گھر اور اس میں موجود تمام اشیا محفوظ کر لی گئی ہیں۔ 

یہاں اندرا گاندھی کے وہ کپڑے، جوتے، پرس بلکہ وہ تمام اشیا، جو قتل کے دن اُن کے استعمال میں تھیں، آج بھی محفوظ ہیں۔پھر ان کا بیڈروم، ڈرائنگ رُوم، اسٹڈی رُوم، ڈائننگ ہال غرض ایک ایک کمرا آج بھی اُسی طرح، اُسی حالت میں موجود ہے، جیسے ان کے زمانے میں تھا۔فرنیچر، کتابیں، انہیں ملنے والے تحائف بھی اسی میوزیم کا حصّہ ہیں۔ایک شیشے کے شو کیس میں راجیو گاندھی کے وہ جاگرز اور موزے بھی نظر آئے،جن کی مدد سے تامل ناڈو میں انتخابی مہم کے دوران خودکُش دھماکے میں راجیو گاندھی کی موت کے بعد ان کی پہچان ہوئی تھی۔ وہ بارود سے سوختہ، خون میں لَت پَت کپڑے آج بھی میوزیم میں محفوظ ہیں۔

اندرا گاندھی کا ڈرائنگ رُوم
اندرا گاندھی کا ڈرائنگ رُوم

ہم نے سوچا، ہماری بھی ایک وزیرِاعظم خودکش دھماکے کی نذر ہوئی ہیں،ان کے ورثا نے ان کی دولت اور اقتدار کی وَراثت تو سنبھال لی، لیکن ان کی یاد میں ایسا کوئی میوزیم نہیں بنایا کہ جس میں مسلم اُمّہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کی یادیں محفوظ کی جاتیں۔ یہی فرق ہے، ہم میں اور ہمارے پڑوسیوں میں۔ خیر، میوزیم دیکھنے کے بعد ہم گیٹ کے پاس اُس جگہ پہ آگئے، جہاں گھر سے نکل کر جب اندرا گاندھی گھاس کے میدان کے بیچوں بیچ پختہ راستے پر چلتی ہوئی گیٹ کے قریب پہنچی تھیں، تو ان کے سکھ محافظوں، ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے انہیں چھلنی کر دیا تھا۔ وہ جگہ، جہاں انہیں گولی لگی تھی، شیشے کے دو گلاسز لگا کر محفوظ کرلی گئی ہے۔ 

اُن دونوں سکھ محافظوں کے اقبالی بیان کے مطابق اس طرح سے اندرا گاندھی کو قتل کر کے انہوں نے 1984 ء میں گولڈن ٹیمپل، امرتسر میں ہونے والے آپریشن ’’بلیو اسٹار‘‘ کا بدلہ لیا تھا۔ اس سے پہلے خفیہ اداروں نے اندرا گاندھی کو متنبہ بھی کیاتھا کہ سکھ محافظوں کو اپنی سیکیوریٹی پر نہ رکھیں، لیکن وہ نہیں مانیں۔ ولیم ڈیلرمپل لکھتا ہے ’’بطور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پروٹوکول میں ایمبولینس بھی شامل تھی، لیکن جب انہیں گولیاں لگیں، تو ڈرائیور چائے پینے گیا ہوا تھا،لہٰذا سونیا گاندھی اپنی ذاتی گاڑی میں انہیں آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لے کر گئیں،جہاں انہیں بچانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی، مگر سب بے سودثابت ہوئیں۔ ‘‘ انہیں خون کی بے شمار بوتلیں بھی لگائی گئیں، مگر بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ کی نفرت اور گولیاں اپنا کام کر چُکی تھیں۔

اندرا گاندھی کے گھر کا ڈرائنگ رُوم بہت بڑا تھا۔ ایک اسٹیل کے حفاظتی جنگلے کے پار بہت بڑی کھڑکی میں لگے،شیشے سے ڈرائنگ رُوم کی ایک ایک چیز عیاں تھی۔ کمرے کی استرکاری سفید رنگ کی تھی۔ چپس کا سادہ سا فرش تھا۔ چاروں کونوں میں چار مختلف رنگوں کے ایرانی قالین فرش کی زینت بنے ہوئے تھے۔ سُرمئی، سُرخ، کلیجی اور قرمزی غالیچوں پہ چوبی صوفہ سیٹس تین کونوں میں رکھے تھے۔ تینوں صوفہ سیٹ کے ساتھ لکڑی کی سادہ سی میزیں بھی تھیں۔ دیواروں پہ پینٹنگز آراستہ تھیں، جب کہ دو، تین دھاتی مورتیاں مختلف تپائیوں کی زینت بنائی گئی تھیں۔اس ڈرائنگ رُوم میں بھارت کی تاریخ کی واحد خاتون وزیراعظم، جو بھارت کی طاقت وَر ترین وزیراعظم بھی تھیں، کبھی شب و روز گزارتی تھیں۔ 

راجیو گاندھی کے کپڑے اور جوتے
راجیو گاندھی کے کپڑے اور جوتے

اس گھر کی غلام گردشوں میں بھارت کے عوام کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے تھے۔ یہیں، اسی گھر میں 1975 ء میں بھارت جیسے بڑے جمہوری مُلک میں ایمرجینسی نافذ کرنے کا فیصلہ ہوا ہوگا۔ یہیں وطنِ عزیز پاکستان کو دولخت کر نے کی سازش کے تانے بانے بُنے گئے ہوں گے۔ واقعی وقت کتنا بے رحم ہے کہ وہ کتنی عجلت اور کتنی سردمہری سے لوگوں کے پاس سے گزر جاتا ہے۔اُتّر پردیش میں امیٹھی کی وہ سیٹ، جو نہرو خاندان کی ملکیت سمجھی جاتی تھی، اب تو وہ بھی نہرو خاندان کے ہاتھ سے جا چُکی ہے۔ اندرا گاندھی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ گارڈز، جو روازنہ صبح انہیں سلام کرتے ہیں، دن رات ان کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں، وہی انہیں چھلنی کرکے موت کے گھاٹ اتاردیں گے۔

اندرا گاندھی آنند بھون ،الہ آباد میں پیدا ہوئیں، ماں بچپن میں ٹی بی سے فوت ہوگئی تھیں، جب کہ باپ، جواہر لال نہرو ساری زندگی سیاست میں بےحد مصروف رہے۔ یوں اندار کا بچپن بہت تنہائی اور ناخوش گواری میں گزرا۔ یہاں تک کہ اپنے والد، جواہر لال نہرو سے ان کا زیادہ تر رابطہ بذریعہ خطوط ہوتا تھا۔ پھر اندرا گاندھی نے فیروز گاندھی سے شادی کرلی،جو کہ بمبئی کے ایک پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والے کانگریسی لیڈر تھے ۔مہاتما گاندھی ہی سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنا نام ’’فیروز گاندھی‘‘رکھا تھا۔ فیروز گاندھی کے نام کی نسبت سے جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ہو گئیں۔ بچپن کے معصومیت سے بھرپور دِنوں میں جب ہم نے پہلی مرتبہ اندارا گاندھی کا نام سُنا تو،انہیں مہاتما گاندھی کی بیٹی سمجھے تھے۔

ایک کمرا تھا، جسے فوٹو گیلری سمجھ لیں۔اُس کی دیواروں پر اندرا گاندھی کی زندگی کے اہم واقعات سے متعلق جن اخبارات میں خبریں یا شہہ سرخیاں شایع ہوئی تھیں، اُن کے صفحات کو فریم کروا کر دیواروں پہ چسپاں کیا گیا تھا۔مسز گاندھی کی یاد گار تصویریں بھی ان دیواروں کا حصّہ تھیں۔ ان کا اسٹڈی رُوم، اس میں موجود کتابیں بھی جوں کی توں محفوط تھیں۔انہیں ملنے والے مختلف تحائف بھی وقت کی دست برد سے محفوظ اس گھر میں لوگوں کی نگاہوں کے منتظر رہتے ہیں۔ اس گھر میں اندرا گاندھی کی یادیں چپّے چپّے پربکھری پڑی تھیں۔ 

کورونا کی پابندیاں ابھی نئی نئی ختم ہوئی تھیں، تو لوگوں کا ایک ہجوم میوزیم میں گھس آیا تھا۔اسکولز کے بچّے، متوسّط طبقے کی عورتیں اور مرد ٹھسا ٹھس اندر بَھرے ہوئے تھے۔ اے سی چلنے کے باوجود گرمی سی محسوس ہورہی تھی۔ ہمیں اندرا کے خاندان اور ذوالفقار علی بھٹّو کے خاندان میں بہت مماثلت نظر آئی۔دونوں سیاست میں ایک ہی دَور میں متحرک رہے۔ دونوں بہت خودپسند اور آمرا نہ ذہن رکھتے تھے۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے جب1971ءکے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر1975ءمیں اندراگاندھی کی حکومت کو چلتا کیا، تو انہوں نے مُلک کا سیاسی ڈھانچا روندتے ہوئے صدرِ جمہوریہ، فخرالدین علی احمد کے ساتھ مل کر ایمرجینسی کا نفاذ کردیا۔

اندرا گاندھی خود بھی قتل ہوئیں اور دونوں بیٹے بھی حادثاتی موت میں مارے گئے۔ سنجے گاندھی اپنا ذاتی جہاز اڑاتے ہوئے جہاز کریش میں مارا گیا اور راجیو گاندھی کو تامل باغیوں نے خودکُش دھماکے میں ہلاک کیا ۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، توایک بیٹا شاہ نواز بھٹو پُراسرار طور پر کمرے میں مُردہ پایا گیا، جب کہ دوسرے بیٹے، مرتضیٰ علی بھٹو کراچی کی سڑکوں پر گولیوں کا نشانہ بنے۔ دوسری جانب، بیٹی بےنظیر بھٹو، جو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، اُنہیں بھی خود کُش حملے میں شہیدکیا گیا۔ اقتدار کی بے رحم گلیوں میں پھرتی موت کا عفریت دونوں خاندانوں کے قریباً تمام اہم افراد نگل گیا۔ لیکن اقتدار کا شوق آنے والی نسلوں کو بھی اسی طرح منتقل ہواہے، جیسے پچھلی نسلوں میں تھا۔

ہم نے باہر نکلتے ہوئے ایک بار پھر مُڑ کر اس مقام کو دیکھا، جہاں31اکتوبر 1985 ء کو اندرا گاندھی کے جسم میں بندوق کی تیس گولیاں اتاری گئی تھیں۔ بعد میں ان کے قاتلوں کو اسی، دہلی شہر کی تہاڑ جیل میں پھانسی پہ لٹکایا گیا۔ستیش کمار یادیو ،اندرا گاندھی میموریل کے باہر ٹیکسی میں ہمارا منتظر تھا۔’’جی بھیا، دیکھ لیا اندرا جی کا گھر؟‘‘جیسے ہی ہم گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوئے،وہ حضرت نیند میں ڈوبی آنکھیں ملتے ہوئے گویا ہوئے۔ 

ہم نے جو دو گھنٹے میوزیم میں گزارے تھے، اُس دوران ہماری کشتی کے ناخدا یعنی ہمارے ڈرائیور، کم گائیڈمحترم ستیش یادیو، نندیا کی آغوش میں دو گھنٹے کی جھپکی لگا آئے تھے۔’’ہاں جی ،دیکھ لیا ہم نےآپ کی اندرا گاندھی جی کا گھر۔‘‘ ہم نےکھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے جواب دیا۔’’تو، کیسا لگا…؟‘‘ستیش نے پوچھا۔’’ہاں، اچھا ہے اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اندرا گاندھی سے متعلق ایک ایک اہم اور قابلِ ذکر چیز محفوظ کر رکھی ہے۔ لوگ اس گھر میں تاریخ کے بہت اہم باب کا مطالعہ،بہت ہی مختصر وقت میں کر سکتے ہیں۔‘‘ ہم نے چہرہ ستیش کی جانب موڑتے ہوئے جواب دیا۔ (جاری ہے)