• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بڑے آدمی کے قتل کا منصوبہ بن رہا ہو، کسی مصروف ترین ایئرپورٹ پر دہشت گردی کی کارروائی کے خد و خال مرتب کئے جا رہے ہوں، کسی شہر کے ترسیلِ آب کے مرکزی نظام کو زہر آمیز کرنے کی سازش کا تانا بانا بُنا جا رہا ہو، اور اس گفتگو کی آڈیو ٹیپ کسی طرح سامنے آ جائے تو ہمارا پہلا ردِ عمل کیا ہو گا؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ہمیں آئے روز کچھ ایسی ہی صورت احوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔آڈیو لیکس کا تانتا بندھا ہوا ہے، نقاب اتر رہے ہیں، جُبہ و دستار داغ دار ہو رہے ہیں، لگتا ہے شہزاد احمد کی دعا قبول ہونے کو ہے ’’خاک ہو جائیں بھرے شہر میں عزت والے...اور روندی ہوئی مخلوق تماشا دیکھے۔ـ‘‘

ان آڈیوز پر پہلا ردِعمل قانونی نہیں فطری ہوتا ہے، کوئی قاتل اگراپنی آڈیو میں قتل کا اعتراف کر رہا ہے توسننے والا پہلی بات یہ نہیں سوچتا کہ قاتل کی گفتگو ٹیپ کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی ، بلکہ یہاں کسی فرضی آڈیو کی مثال دینے کے بجائے کسی حقیقی آڈیو لیک پرغور کئے لیتے ہیں، مثلاً، جب شوکت ترین پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے دو صوبائی وزرائے خزانہ کو ہدایات جاری کر رہے ہیں، اور ساتھ ہی اس بات کا عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ ان کے پارٹی سربراہ کی تائید بھی اس منصوبے کو حاصل ہے، اور ایک صوبائی وزیر شوکت ترین کو یاد دلا رہے ہیں کہ اس سے ریاست کو نقصان ہو سکتا ہے، اور شوکت ترین جواب میں جو کہہ رہے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ بھاڑ میں جائے ریاست اور اس میں بسنے والے کروڑوں بے گناہ لوگ، تو یہ آڈیو سن کر آپ کا کیا ردِعمل تھا؟جذباتی دوستوں کے ذہن میں تو غالباً سیدھا سیدھا ـ’فائرنگ اسکواڈ‘ آیا ہو گا مگر معتدل حضرات کو بھی غداری کی بُو تو آئی ہو گی؟ شوکت ترین کی گفتگو ٹیپ کرنا قانونی تھا یا غیر قانونی ، یہ سوال بعد میں ذہن میں آتا ہے۔

اسی طرح اگر کچھ آڈیوز میں بشری صاحبہ جِن و انس کو ’غداری سے جوڑنے‘ کے احکامات دے رہی ہیں، عمران خان کھیلن کو سائفر مانگ رہے ہیں یا اسمبلی میں پانچ گھوڑوں کی شاپنگ کا ذکرِ خیر کر رہے ہیں، یا جسٹس جاوید اقبال سر تاپا لب آزمائی پر آمادہ سنائی دیتے ہیں، تو پہلا خیال ان کرداروں کی ’اصلیت‘ کے حوالے سے آتا ہے۔ ایسی ہی ایک آڈیو لیک کا آج کل بہت چرچا ہے، آڈیو ہے پرویز الٰہی اور جج مظاہر علی کی، جن میں دونوں اصحاب کی قربت مثالی دکھائی دیتی ہے۔

اس آڈیو کی انفرادیت یہ ہے کہ مکالمہ کے ایک فریق جج ہیں، ورنہ عام طور پر یہ کھیل سیاست دانوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ جو آڈیووالے جج صاحب ہیں، کیا ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کیس چلے گا ؟ اگر ماضی سے راہ نمائی لی جائے تو بلا تامل کہا جا سکتا ہے ’کچھ نہیں ہو گا‘ ۔ درجنوں آڈیوز لیک ہوئی ہیں، جن میں سے کئی ایک پر واضح قانونی کیس بنتا تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، علی امین گنڈا پور مسلح جتھے لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کریں یا بشری صاحبہ کو کروڑوں کے ہیرے دے کر اربوں کے فائدے لئے جا رہے ہوں، کبھی کوئی کیس نہیں بن سکا۔ تو پھر یہ کیا کھیل ہے؟

یہ آڈیو کون ریکارڈ کرتا ہے، اس بارے میں اجماعِ امت پایا جاتا ہے، یہ کام خفیہ ایجنسیاں کرتی ہیں، اور آپ کیا سمجھتے ہیں ان سب ریکارڈنگز کا مقصدکیا ہوتا ہے، بالخصوص وہ آڈیوز وڈیوز جنہیں مشتہر کیا جاتا ہے؟ کیا ان کا مقصد جمہوریت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے؟ کیا ان کا ہدف معاشرے کا گند صاف کرنا ہوتا ہے؟یا ان آڈیوز کا مقصد صرف اور صرف ’نافرمان اولاد‘ کوراہِ راست پر لانا ہوتا ہے؟ جس طرح پچھلے کچھ ماہ سے عمران خان اور ان کے حواریوں کو سبق سکھایا جا رہا ہے؟یہ بات طے ہے کہ ان ریکارڈنگز کا واحد مقصد گینگ کے مقاصد سے انحراف کرنے والے کارندوں کو ذرا ’گندہ‘ کرنا ہوتا ہے، انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا نہیں، ان گھوڑوں کو شاید اگلی ریس میں دوڑانا پڑ جائے، اس لئے انہیں چابک مارے جاتے ہیں، گولی نہیں ماری جاتی۔یعنی آڈیوز مشتہر کرنے والے اور پھر ان آڈیوز کے کرداروں کو تحفظ دینے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ آڈیوز کسی قانونی اجازت کے بغیر ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی قانونی طور پر کسی قومی مقصد کے تحت اگر کسی شخص کی ریکارڈنگ کی اجازت دے (مشتہر کرنے کی نہیں) تو شاید ہم بھی اس عمل کی افادیت کے قائل ہو جائیں۔بہرحال، مورل آف دی اسٹوری یہ ہے کہ ایک کام جو بد نیتی کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اس میں سے کیا خاک خیر نکلے گا۔اسی لئےآج تک ان آڈیوز وڈیوز سے سوائے ’شُغل‘ لگنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔اور شُغل بھی ادھورا، کیوں کہ یہ سب آڈیوز بے وردی افراد کی ہوتی ہیں۔

ججوں کی آڈیوز بھی خال خال ہی عوام تک پہنچتی ہیں، غالباً ان کی آڈیو وڈیو انہیں تنہائی میں سنا کر ہی کام چل جاتا ہے، ویسے بھی ججوں کی آڈیو کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، ان کے فیصلے بولتے ہیں، اور لکنت زدہ فیصلوں سے پتا چل جاتا ہے کس کس کی آڈیو وڈیو ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔اب آپ ہی بتائیں کیا ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور ان کے چند جانشینوں کی ’خوش نیتی‘ ثابت کرنے کے لئے ان کی ریکارڈنگ سننے کی ضرورت ہے؟ اسی طرح پرویز الٰہی سے ہم کلام جج کی آڈیو بنانے پر قوم کا پیسہ ضائع کیا گیا ہے،ان کے فیصلے بولتے ہیں، بالخصوص مشرف صاحب والا فیصلہ۔

تازہ ترین