• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور سے سوات کے لئے گھر سے نکلے تو اندازہ نہیں تھاکہ یہ سفر شیطان کی آنت ثابت ہوگا، اصل میں قصور ہمارااپنا تھا ، موٹر وے لینے کی بجائے ہم نے اپنی پرانی محبت یعنی جی ٹی روڈ کو ترجیح دی ، اکثر جب ہمیں ناسٹلجیا کا دورہ پڑتا ہے تو ہم جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہیں ، اِس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگر لگتا ہے کہ اب ہمیں اِس محبوبہ کے ساتھ بریک اپ کرنا پڑے گا ۔ہوا یوں کہ لالہ موسیٰ کے قریب یکدم جی ٹی روڈ سے گاڑیاں واپس مُڑنے لگیں تو ہمارا ماتھا ٹھنکا، تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ آگے کسی گاؤں میں قتل ہوا ہے اور مقتول کے ورثا نے سڑک بلاک کر رکھی ہے ، ہم نے بھی گاڑی واپس موڑ کر کچے میں ڈال دی جہاں سب گاڑیاں جا رہی تھیں ، کچھ دور جا کر دیکھا تو سب گاڑیاں ادھر ادھر غائب ہو چکی تھیں اور صرف ہماری گاڑی ’ڈیڈ اینڈ‘ پر کھڑی تھی ۔وہاں لوگوں سے راستہ پوچھا تو ایک مرد عاقل نے،جس کی شکل مہاتما بدھ سے ملتی تھی، بتایا کہ آپ گنجا موڑ کے راستے جائیں ، وہیں سے آپ کو کھاریاں کے قریب دوبارہ جی ٹی روڈ مل جائے گی۔یہ چونکہ ’فیملی ٹرپ‘ تھا اِس لئے ہم نے ویگن کرائے پر لی ہوئی تھی ،ویگن کےڈرائیور کی شکل امریکی اداکارسکیٹ اُلرِک سے ملتی تھی ، اُس کو اپنا چالان کروانے کا بہت شوق تھا، لاہور سے نکلتے وقت ہم ایک کھوکھے پر کچھ دیر کے لئے رُکے کہ وہاں سے نان چنے کھائیں تو اُس نے چھ سو روپے کا چالان ہمارےہاتھ میں تھمادیا ، کہنے لگا یہ روٹ پرمٹ والوں نے کیا ہے ، ہم نے کہا کہ کسی نے روکا ہی نہیں تو چالان کیسے ہوگیا، بڑی رسان سے بولا کہ وہ لوگ یہیں کھڑے ہوتے ہیں اور مجھے پہچانتے ہیں۔اُس کے بعد موصوف نے گوجرانوالہ داخل ہونے سے پہلے اعلان کیا کہ یہاں بھی ہمارا چالان ہوگا کیونکہ شہر میں شام سے پہلے بڑی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے ، ایک جگہ تو اُس نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو دیکھ کر بریک بھی لگانی چاہی مگر پھر میرے چھوٹے بھائیوں جیسے کزن سید کاشف عزیر نے اسے سمجھایا کہ عزیزم اگر اُس شریف آدمی نے آپ کو نہیں روکا تو آپ کیوں اپنے پیر پر کلہاڑی ماررہے ہیں ، چلتے رہئے۔

سوات میں داخل ہوتے ہوتے رات کے آٹھ بج گئے ، جس ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی وہ دریا کے کنارے تھا ، سوات میں زیادہ تر ہوٹل دریا کے ساتھ ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہوٹلوں کی قطار دیکھ کر لاس ویگاس کی ’سٹرپ‘ یاد آگئی،ہم غریبوں کا گزارا اب اسی سٹرپ پر ہے۔سوات جیسے شہروں میں ہوٹل تو بہت ہوتے ہیں مگر اُن میں جدیدیت نہیں ہوتی، شہری قسم کا بندہ اُن مقامی ہوٹلوں میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا، وہ ایک خاص قسم کی برینڈنگ کا عادی ہوتا ہے جو اِن دیسی طرز کے ہوٹلوں میں اسے نہیں ملتی ، ایسے میں پھرفائیو اسٹار ہوٹل ہی بچتے ہیں مگر وہ اب بے حد مہنگے ہوچکے ہیں، جس ہوٹل میں ہم نے پچھلے سال قیام کیا تھا اُس کا کرایہ تین گنا بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں کراچی کے کسی شخص نے کمال کا کاروبار شروع کیا ہے ، اُس نے پاکستان کے چودہ شہروں میں مقامی ہوٹلوں کے ساتھ شراکت کرکے اُن سے کچھ کمرے حاصل کئے اور اُن کمروں کی برینڈنگ کرکے انہیں شہری مسافروں کے لئے قابل قبول بنا دیا، یہ کمرے مناسب پیسوں میں دستیاب ہیں، انہیں آپ بجٹ ہوٹل کہہ سکتے ہیں ۔ہم ایسے ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرے، یہاں صرف ناشتے کی سروس اتنی عمدہ نہیں تھی باقی سب بہترین تھا۔

سوات سے ہمارا ارادہ مالم جبہ جانے کا تھا، بلاشبہ یہ پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے،یہاں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں پر آپ اسکینگ بھی کرسکتے ہیں ، اُس کے لئے تمام اشیا یہاں دستیاب ہیں، اِس کے علاوہ چیئر لفٹ اور زپ لائن بھی موجود ہے، اِن تفریحات کے لئے لوگ یورپ جاتے ہیں جبکہ اپنے ہاں اب بھی یہ سب کچھ کم پیسوں میں ممکن ہے ۔زپ لائن کے لئےپہلے آپ چیئر لفٹ کے ذریعے اونچائی تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سےکمر پر زنجیر کس کر پہاڑوں کے درمیان تقریباً پرواز کرتے ہوئے فائیو اسٹار ہوٹل کی چھت پر اترتے ہیں۔ یہ کام کرتے ہوئے پہلے تو مجھے کچھ خوف محسوس ہوا مگر پھر نیچے دیکھ کر اطمینان ہوا کہ اگر نیچےگر بھی گیاتو ایک آدھ ہڈی تو شایدٹوٹ جائےپر جان بچ جائے گی۔سوات میں سیکورٹی کا بندوبست تسلی بخش تھا، ایک بات جو مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی وہ سوات کی نان کسٹم پیڈگاڑیاں ہیں،چپے چپے پر غیر قانونی شو روم ہیں جہاں اسمگلنگ کی گاڑیاں اونے پونے داموں مل جاتی ہیں،کسی گاڑی کے کوئی کاغذات نہیں ہیں، جس کے پاس چابی وہی گاڑی کا مالک، جو گاڑی لاہور میں تیس لاکھ کی ہے وہ سوات میں آٹھ لاکھ روپےمیں مل جاتی ہے، کروڑوں کی گاڑیاں یہاں چند لاکھ میں دستیاب ہیں ، یہ لوگ آپ کو گاڑی پہنچانے کی ضمانت بھی دیتے ہیں ، اُس کے بعد آپ کا ذمہ۔یہ سب کاروبار کیوں اور کیسے چل رہا ہے ، یہاں قانون لاگو کیوں نہیں ہوتا، مجھے اِس کا علم نہیں۔

کوویڈ کے بعد پاکستان میں مقامی سیاحت کوخاصا فروغ ملا تھا،میرا اندازہ ہے کہ مقامی سیاحت میں اب بھی وسیع امکانات موجود ہیں ، ہمارے ہاں کا ’اربن ٹریولر‘ یہ چاہتا ہے کہ جب وہ شمالی علاقہ جات، سندھ ،بلوچستان یا چولستان کا سفر کرے تو راستے میں صاف ستھرے کیفے، ریستوران اور واش روم ملیں،چھوٹے شہروں میں رہائش کے لئے جدید طر ز کے بجٹ ہوٹل ہوں اور سب سے بڑھ کرتحفظ کا احساس ہو۔پاکستان میں شاہراہوں کا نظام خاصا عمدہ ہے ، دور دراز علاقوں تک بھی موٹر وے یا ایکسپریس وے مل جاتی ہے ، اگر سیاحتی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو پاکستان کی مقامی سیاحت کو مزید فروغ مل سکتا ہے ۔یہ باتیں تومیں نے لکھ دی ہیںمگر یہ نہیں لکھا کہ اگر یہ سب کچھ ہوبھی جائے تو اُس غربت کاکیاکریں گے جو ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے ، اربن ٹریولر ہی تو سب کچھ نہیں ، غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے بھی تو اسی ملک کے شہری ہیں ، لاہور سے سوات تک کے سفر میںہم جہاں بھی رکے ، کوئی نہ کوئی بچہ ہمارے سامنے ہاتھ پھیلاکر کھڑا ہوجاتااور کہتا ’پچاس روپے۔‘ پچھتر برس ہوگئے، ہم اِن پچاس روپوں کا انتظام نہیں کرسکے!

تازہ ترین