• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کےانتہائی گھمبیر اور خطرناک معاشی ،سیاسی اور اخلاقی بحران سے گزررہا ہے۔معاشی تباہ حالی اپنی بدترین شکل میں موجود ہے جب کہ ملک غیریقینی سیاسی دلدل میں تیزی سےدھنستا جارہا ہے ۔معاشی بحران سے نکلنے کیلئے سودی معیشت،شاہانہ اخراجات،اشرافیہ کوملنے والی اربوں روپے کی ناجائز مراعات ،انتظامی مصارف میں پے درپے اضافے اورکرپشن کے منحوس دائروں کا خاتمہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔اسی طرح سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے مختلف دیگر تجاویز کے ساتھ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنانا بھی انتہائی ضروری ہے ۔موجودہ طریقۂ انتخاب یک رُکنی حلقہ جاتی نظام ہے ۔یک رُکنی حلقہ جاتی نظام میں جیتنے والا بسا اوقات 30فیصد ووٹ لیکر کامیاب ہوجاتا ہےجب کہ 70فیصد ووٹروں کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں پہنچتی ۔ان کے ووٹ ضائع ہوجانے کے خدشے کی وجہ سے ووٹروں کی انتخابات میں دلچسپی برقرارنہیں رہتی چنانچہ ووٹنگ کی شرح بہت کم رہتی ہے ۔پارٹیاں بھی الیکٹیبلز یعنی جیتنے والے گھوڑوںکی تلاش میںرہتی ہیں۔ اسلئے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔پارٹی منشور کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔حلقہ کا فرد ہی اصل اہمیت رکھتا ہے ۔ووٹر یا پارٹی اس کی شخصیت کے منفی پہلوئوں کی طرف نہیں دیکھتے۔ اس طریقۂ انتخاب میں لوکل یا انجینئرڈ دھاندلی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے ۔برادری ازم اور مقابلے کی فضا کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بلکہ قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر حلقہ کیلئے بیلٹ پیپرز کے رنگ الگ ہوتے ہیں۔ ان خرابیوں کی وجہ سے ہی متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا گیا ،اس سلسلے کا پہلا تجربہ 1856میں ڈنمارک میں ہوا۔1871میں جرمنی نے بھی اس طرف پیش قدمی کی ۔اس وقت دنیا کے 80ممالک میں یہ نظام رائج ہے ۔اس طرح کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا ۔ہر پارٹی اور ہر نقطۂ نظر کی نمائندگی اسمبلی تک پہنچتی ہے ۔ووٹر کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے ۔اجارہ داریوں اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ دھونس ،دھاندلی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔پارٹیاں بہتر امیدوار دیتی ہیں ۔اسمبلیوں میں ماہرین قانون و معیشت ،نامور علمائے کرام کو بھی نمائندگی مل جاتی ہے ۔الیکشن کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔قوم کا سرمایہ اور وقت بھی بچتا ہے ۔ متناسب نمائندگی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے نئی نئی پارٹیاں بنتی ہیںاور علاقائی ،لسانی اور برادریوں کی سیاست کو عروج ملتا ہے ۔وفاقیت کمزور ہوتی ہے اور ناپائیدار مخلوط حکومتیں وجو دمیں آتی ہیںاور اس کیلئے دستور میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ اعتراضات زیادہ تر لاعلمی پر مبنی ہیں،متناسب نمائندگی سے سیاسی ادارہ سازی وجود میں آتی ہے ۔صاف ستھری سیاست اور نظریاتی اساس مضبوط ہوتی ہے ۔ایک دو انتخابات کے بعد فرقہ پرستی ،برادری ،لسانی بنیادوں پر بننے والی پارٹیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔پاکستان کے 1970کے انتخابات سے دونوں نظاموںکو زیادہ بہترسمجھا جاسکتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 61لاکھ 48ہزار ووٹ لئے ،یہ ملک بھر کے ووٹوں کا 18فیصد اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کا 38فیصد تھا۔اسے 81سیٹیں ملیں ۔اگر متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو 56سیٹیں ملتیں۔ عوامی لیگ نے ایک کروڑ 29لاکھ ووٹ لئے جو ملک بھر کے ووٹوں کا 38فیصد اور مشرقی پاکستان کے ووٹوں کا 75فیصد تھا ۔اسے 160سیٹیں ملیں ۔متناسب نمائندگی کی صورت میں 100سے بھی کم سیٹیں ہوتیں ۔ جماعت اسلامی کو 19لاکھ 90ہزار ووٹ ملے اور چارسیٹیں ملیں۔ متناسب نمائندگی کی صورت میں سیٹوں کی تعداد 16ہوتی ۔دنیا بھر میں پورا ملک حلقہ ،صوبہ حلقہ ،ضلع حلقہ کے طریقے رائج ہیں ۔اسی طرح پارٹی لسٹ سسٹم ،مکسڈ ممبر سسٹم وغیرہ کے نظام چل رہے ہیں ۔ 1970کے الیکشن کے منشور کے لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں اس طریق انتخاب کی تائید کی گئی تھی ۔ اب جماعت اسلامی ،پاکستان عوامی تحریک وغیرہ حامی ہیں۔تاہم جاگیر دارانہ طرز سیاست کے خاتمے کیلئے پہلے مرحلے میں 50فیصد حلقہ جاتی، 50فیصد متناسب نمائندگی یا پارٹی ووٹ ،حلقہ کے ووٹ کے امتزاج کا طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔

(صاحبِ مضمون نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں)

تازہ ترین