پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ کا بھی نوٹ سامنے آیا ہے، جس میں میں انہوں نے کہا ہے کہ اس عدالت کے ہر جج کا آئینی، قانونی فرض ہے معزز چیف جسٹس کےتشکیل کردہ بنچ میں بیٹھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جج صاحبان بینچ کو سپرد کردہ مقدمات کو سنیں، کسی قانونی جواز کے بنا کوئی جج کسی خاص کیس کی سماعت سے خود کو الگ نہ کر دے، کسی قانونی جواز کی عدم موجودگی میں، محض دستبرداری آئینی، قانونی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی سوچ کے ساتھ میں نے اپنے آپ کو ان مقدمات کی سماعت سے الگ نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے، میں نے ایسا ان تحفظات کے باوجود کیا کہ موجودہ کیس میں آئین کے اصل دائرہ اختیار کو کیسے از خود نوٹس کے ذریعے انووک کیا گیا ہے، میں نے ایسا موجودہ بینچ پر تحفظات کے باوجود کیا، تاہم یہ میری آئینی و قانونی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے تحفظات کو ریکارڈ پر لاؤں، ایسا نہ ہو کہ یہ غلط فہمی رہے کہ میرے پاس کچھ نہیں اور میری خاموشی کو میری رضا مندی سمجھا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے از خود نوٹس کا معاملہ اس عدالت کے دو رکنی بینچ کے عدالتی حکم سے پیدا ہوا ہے، دو رکنی بینچ نے عدالتی حکم ایک سرکاری ملازم کی سروس کے معاملے پر سماعت کے دوران دیا، دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس سے آئین کے تحت عدالت کے اصل دائرہ اختیار پر از خود نوٹس لینے کی سفارش کی۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ حکم ایسے کیس میں دیا گیا جس کا ہمارے سامنے موجود معاملے سے کوئی سروکار نہیں تھا، عدالتی حکم اس معاملے میں دو رکنی بینچ کی غیر ضروری دلچسپی کی عکاسی کرتا ہے، اس عدالتی حکم سے جڑا عوامی حلقوں میں تنازع ہے جو مذکورہ بینچ کے ایک ممبر سے متعلق آڈیو لیکس سے پیدا ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کے اندر اور باہر سے درخواستوں کے باوجود اس عدالت یا سپریم جوڈیشل کونسل کے آئینی فورم کی طرف سے الزامات کا کوئی ادارہ جاتی جواب نہیں آیا، بار کونسلز کی جانب سے مذکورہ بینچ ممبر کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے جانے کی خبر ہے، اس پس منظر میں عوامی اہمیت کے موجودہ معاملے میں مذکورہ رکن کو بینچ میں شامل کرنا نا مناسب معلوم ہوتا ہے، مذکورہ رکن کی شمولیت اس وقت زیادہ اہم ہو جاتی ہے جب اس عدالت کے دیگر سینئر ججز بینچ میں شامل نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ معزز چیف جسٹس نے اپنےحکم میں مشاہدہ کیا کہ ان معاملات میں آئینی نفاذ کے مطالبے کے علاوہ عوامی اہمیت کی آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی شامل ہے، مذکورہ مشاہدے کے باوجود اس عدالت کے 2 سینئر ترین معزز ججوں کو اس بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا، یہ بینچ اہم عوامی اہمیت کے معاملات کی سماعت اور فیصلہ کرے گا، ان معزز ججز کو بینچ میں شامل نہ کرنے کی وجوہات مذکورہ بینچ بنانے کے آرڈر میں نہیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ عدالتی ادارے کے طور پر ہماری سب سے بڑی طاقت عوام کے اعتماد میں ہے، ہماری غیر جانبداری، بشمول عوام میں ہماری غیر جانبداری کا تاثر، شفافیت اور انصاف کی فراہمی میں کھلے پن کے بارے میں عوامی تاثر ہر وقت غیر متنازعہ اور ملامت سے بالا تر ہونا چاہیے۔