• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے جسٹس اطہر من اللّٰہ کا نوٹ بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان کا آرڈر پڑھ لیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدگی میں نہیں دیکھا جا سکتا، صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنے نوٹ میں سوال کیا ہے کہ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟

ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں، ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کی آئینی و قانونی حیثیت دیکھنا ناگزیر ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں جو یہ ہیں:

پہلا سوال: کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیرِ اعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں؟

دوسرا سوال: کیا وزیرِ اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟

تیسرا سوال: کیا کسی بنیاد پر وزیرِ اعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جا سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ میں نےجب عدالت میں آئینی نکات اٹھائےتو چیف جسٹس نے انہیں شامل کرنے پر اتفاق کیا، میرے سوالات پر بینچ کے کسی رکن نے اعتراض نہیں کیا، کھلی عدالت میں میرے سوالات کو شامل کر کے حکم نامہ لکھوایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈرتحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا، جہاں آئین کی تشریح اس عدالت کا اختیار ہے وہاں آئین کا تحفظ بھی اسی عدالت کا کام ہے، آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے آنے والے ہر وقت میں چلنا ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، یہ ناگزیر ہے کہ آئینی خلاف ورزیوں اور آئینی تشریح کے اہم معاملات کو فل کورٹ سنے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہوگئی ہے۔

قومی خبریں سے مزید