• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت جن مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے ان کا تقاضا ہے کہ برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیگر شعبوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے ایک اہم شعبہ فرنیچر سازی کی صنعت ہے جس پر توجہ دے کر پاکستان کی برآمدات میں فوری طور پر نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔اس شعبے کے پوٹینشل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے کاروباری مواقع کی تلاش اور پاکستانی مصنوعات کیلئے نئی منڈیوں تک رسائی ممکن بنانےکیلئے پاکستان فرنیچر کونسل نہایت فعال کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے پلیٹ فارم سے جون کے مہینے میں تقریباً ایک سو سے زائد پاکستانی کمپنیاں چھ روز ہ الجزائر ایکسپو میں شرکت کر رہی ہیں۔ یہ ایکسپو پاکستانی مصنوعات کی نمائش اور بین الاقوامی خریداروں سے کاروباری معاہدے کرنے کا بہترین موقع ثابت ہو سکتی ہے۔اس ایکسپو میں شرکت سے پاکستانی برآمد کنندگان کو یورپ اور امریکہ کی مسابقت سے بھرپور منڈیوں کے مقابلے میں ایک نئی منڈی میسر آئیگی۔بنیادی طور پراس طرح کی نمائشیں مینوفیکچررزکیلئے ایک سورسنگ پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں جس میں بنیادی اشیا سے لے کر انتہائی تخلیقی اور معیاری مصنوعات کی وسیع رینج کی نمائش شامل ہوتی ہے۔اس طرح نہ صرف پاکستانی کمپنیوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا موقع ملے گا بلکہ انکی فرنیچر کی صنعت کے نئے تقاضوں کی سمجھ بوجھ میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کا کردار بھی قابل تحسین ہے کہ وہ برآمدات میں اضافےکیلئے نئی منڈیوں کی تلاش میں برآمدی مصنوعات بنانےوالے ہر شعبے کو بھرپور تعاون فراہم کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ فرنیچر کی عالمی مارکیٹ کا حجم 600ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں پاکستان کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم خوش آئندامر یہ ہے کہ رواں مالی سال 23-2022ء کے پہلے پانچ ماہ میں فرنیچر کی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کی اس مدت کےمقابلے میں 80فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ان حالات میں اگر فرنیچر انڈسٹری کی برآمدات میں اضافےکیلئے نئی غیر ملکی منڈیوں کی تلاش پر خصوصی توجہ دی جائے تو مزید بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہاتھ سے کندہ شدہ لکڑی کے فرنیچر کی عالمی منڈیوں میں بہت زیادہ مانگ ہے۔اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہئے کہ فرنیچر انڈسٹری کو ایک اہم شعبہ قرار دیکر طویل المدت پالیسی تشکیل دے ۔علاوہ ازیں ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ پاکستانی مصنوعات کی نمائش کیلئے مزید سنگل کنٹری ایکسپوز کا انعقاد کرے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مشترکہ منصوبوںکیلئے پاکستان مدعو کرے۔ ہمیں پاکستان میں فرنیچر انڈسٹری سے وابستہ افرادی قوت کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے پیمانے پر برآمدی آرڈرز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انکی عالمی معیار کے مطابق تیاری اور بروقت ڈلیوری کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں فرنیچر سازی کی صنعت کا زیادہ تر انحصار روایتی طریقوں پر ہے پھر یہ کہ فرنیچر سازی کی جدید اور آٹو میٹک مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکس اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کوئی ادارہ اسے خریدنے کا فیصلہ کر بھی لے تو یہ اس کیلئے گھاٹے کا سودا بن جاتا ہے۔

مختلف وجوہات کی بنا پر ہم اس شعبے کو وہ ترقی یا توجہ نہیں دے سکے جو دی جانی چاہئےتھی۔ان مسائل کو دیکھتے ہوئے ایک دہائی قبل میںنے پاکستان فرنیچر کونسل کے نام سے ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن تشکیل دی تھی تاکہ پاکستانی فرنیچر کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اس شعبے کو درپیش مسائل حل کروانےکیلئے بھی اقدامات کئے جا ئیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ہماری تجاویز پر اس شعبے کو فروغ دینےکیلئے فرنیچر کے شعبے میں استعمال ہونے والے بنیادی خام مال یعنی لکڑی کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی تھی ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فرنیچر مینو فیکچرنگ کیلئے استعمال ہونیوالی مشینری اور ہارڈ وئیر کی مختلف درآمدی مصنوعات پر بھی ڈیوٹی ختم کی جائے۔اس سے مینوفیکچرنگ کا شعبہ فروغ پائے گا اورملکی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ساتھ فرنیچر کی برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا۔

فرنیچر انڈسٹری کے ایکسپورٹ پوٹینشل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بطور چیئرمین فیڈمک فیصل آبادمیںپاکستان کے سب سے بڑے اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کی ڈویلپمنٹ کو لیڈ کرتے ہوئے اس اکنامک زون میں200ایکڑ پر محیط عالمی معیارکے ’’فرنیچر سٹی‘‘ کی تجویزدی تھی۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد بین الاقوامی سطح پر مسابقت کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کی معاونت کرنا ہے۔ فیڈمک فرنیچر انڈسٹر ی کیلئے انتہائی جدید ’’سینٹر فار ایکسیلنس‘‘ بنائے گی جہاں لکڑی کے کاریگروں اور طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ فرنیچر مصنوعات کی تیاری میں بین الاقوامی معیار پر عمل کرسکیں۔ فرنیچر سازی کے یونٹس کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے وفاقی اور صوبائی محکموں کے ساتھ معاملات کے حل میں معاونت کے علاوہ انہیں ایک بھرپور کاروباری ڈھانچہ بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس فرنیچر سٹی اور چنیوٹ کا فاصلہ تقریبا 16 کلومیٹر ہے جس سے چنیوٹ کی فرنیچر انڈسٹری کو بہت فائدہ ہو گا اور یہ منصوبہ فرنیچر کی عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی پہچان بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔

تازہ ترین