• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانوالی کے شہر پکی شاہ مردان میں محفل مشاعرہ میں جانے کیلئے فرحت عباس شاہ،خالد ندیم شانی اور میں نکلے تو مال روڈ پر رش کی وجہ سے گاڑی اسپیکر ہائوس کےسامنے رک گئی ۔گیٹ کھلا تھا ،میں نے ڈرائیورسے گاڑی کواندرموڑنے کا کہا اور پھرتھوڑی دیر بعدہم سبطین خان کے پاس بیٹھے تھے۔ جہاں شبلی فراز بھی تھے جعفرخان بھی ۔مزاحتمی ادب پر گفتگو شروع ہوئی ۔ احمد فراز زیر بحث آئے۔یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ تحریک انصاف نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔عمران خان کے ساتھ عوام توہیں ، لکھنے پڑھنے والے لوگ بھی ہیں مگر انہیں مرتب نہیں کیا گیا۔پی ٹی آئی شاعروں اور ادیبوں کا بھی ایک ونگ ہونا چاہئے ۔شبلی فراز کے ساتھ لاہور میں بہت جلد ہونے والے فراز فیسٹیول کی بھی بات ہوئی جو ابھی جاری ہے ۔یقیناً اگلے ہفتے تک اس کی کوئی نہ کوئی تاریخ فائنل ہوجائے گی ۔شام ہوتے ہی شروع ہونے والا’’مقاصدہ ‘‘ رات دیر تک جاری رہا۔

دوسرے دن واپس لاہور پہنچا ہی تھا کہ پروفیسر ڈاکٹر عصمت درانی کا فون آگیا کہ آپ کس وقت بہاول پور پہنچ رہے ہیں ۔یاد آیا کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نےچار روزہ لٹریری اینڈ کلچرل فیسٹیول بپا کیا ہوا ہے اور میں نے مشاعرے میں شریک ہونے کاوعدہ کررکھا ہے۔ جواد اکرم سے بھی کافی دن ہو گئے تھے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ بھی پچھلے کچھ عرصہ سے بہاول پور میں ہیں ۔سو صبح اٹھتے ہی بہاول پور کیلئے نکل پڑا۔بہاول پورجم خانہ میں کھانے پراحتشام انور کمشنر بہاول پور اور ڈپٹی کمشنر ظہیر انورجپہ سے ملاقات ہوئی ۔ اسد طاہر جپہ یاد آئے ۔وہ ان دنوں شاید انگلینڈ گئے ہوئے ہیں ۔مشاعرہ ہوا اور بے پناہ ہوا ۔رات پونے تین بجے اختتام کو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آخری لمحے تک کمشنر سمیت ساری انتظامیہ مشاعرےمیں موجود رہی ۔کسی باذوق کمشنر کا کسی ڈویژن میں ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ۔ان دونوں مشاعروں کے بیچ بھی میں نے سیاسی منظر نامہ کا کوئی لمحہ قضا نہیں ہونے دیا ۔عمران خان کی اسلام آباد آمد اور لاہور واپسی کا منظر دیدنی تھا۔شہر کا شہر امڈ آیا تھا۔وہی حالت تھی جو لاہور ہائی کورٹ کی آنکھوں میں پیوست ہو گئی ہے ۔اگلے دن سپریم کورٹ کا آئین کے حق میں تاریخ ساز فیصلہ آیاجسے کچھ لوگ مسلسل متنازعہ بنانے کی کوشش میں ہیں مگر فیصلہ تو فیصلہ ہے ۔اس پر عمل در آمد نہ کرنے والوں پر اورکوئی آئینی شق لاگو ہو یا نہ ہو ۔توہینِ عدالت ضرور ہوگی۔

عمرن خان نےچیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ میری زندگی پھر خطرے میں ہے۔دیکھتے ہیں چیف جسٹس اس معاملہ میں ازخود نوٹس لیتے ہیں یا نہیں ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کرانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا عمران خان کے حوالے کر دیے جائیں ۔میں اس بات کو تھوڑا سا مختلف انداز میں دیکھتا ہوں۔ ان دونوں صوبوں میں پہلے حکومتیں عمران خان کے پاس تھیں ۔اس نے خود تحلیل کرائی تھیں تاکہ پورے ملک میں انتخابات کرائے جا سکیں ۔صرف دو صوبوں میں دوبارہ انتخابات پی ٹی آئی کی جیت نہیں ۔پی ٹی آئی کی جیت تو اس وقت ہو گی جب پورے ملک میں انتخابات ہونگے ۔وفاقی حکومت صرف دو صوبوں میں الیکشن کرانے کے بعد اگر ایک سال قومی اسمبلی کی مدت میں اضافہ کا بل پاس کرتی ہے ۔ایسی صورت میں پی ٹی آئی کیا کرے گی ۔اس طرح کے کئی سوال ہیں ۔پی ٹی آئی نے راجن پور میں الیکشن جیت کر اچھا نہیں کیا ۔اگر کوئی اورپارٹی جیت جاتی تو پورے ملک میں انتخابات ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ۔

جہاں تک عمران خان کو نااہل کرنے کا معاملہ ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس میں مخالفین کامیاب ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کو کسی اور نظرسے دیکھے گی۔اس وقت سپریم کورٹ پر بہت دبائو ہے مگر پاکستانی قوم انحصار بھی صرف سپریم کورٹ پرہی کررہی ہے۔

اللہ خیرکرے۔ ڈالر 285 روپے کا ہو گیا ہے۔ بجلی بھی کچھ اور مہنگی ہوگئی ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ایسا کوئی کام کیوں نہیں کررہی جس سے غریب کی سانس بحال ہو سکے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ حکومت سرکاری زمینوں میں سے ایک لاکھ ایکٹر زمین پاکستانیوں کو ہی فروخت کردے اور ملک کو اس معاشی تباہ حالی سے باہر نکال لے۔ ریلوے کے پاس اربوں کھربوں روپے کی زمین پڑی ہےمگر کیا عدالتیں انہیں فروخت کرنے کی اجازت دیں گی۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں عام انتخابات ہوں۔ عوامی حکومتیں موجود ہوں ۔صرف انہی کے کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد ممکن ہے۔ سو ضروری ہے کہ فوری طور پرانتخابات کرائے جائیں ۔

تازہ ترین