• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام (UNDP) کے نائب سیکریٹری جنرل اور ریجنل چیف Kanni Wignaraja نے پاکستان کے دو ہفتے کے ورچوئل ٹور کے بعد اپنی رپورٹ NHDR میں بتایا کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4ارب ڈالر یعنی تقریباً 4250ارب روپے کی مراعات لیتی ہے، جس میں پاکستان کا طاقتور کارپوریٹ سیکٹر ملکی GDP کا تقریباً 4.5فیصد یعنی 4.7ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ جاگیردار، زمیندار، وڈیرے اور بڑے بزنس مین جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق کی بنا پر پارلیمنٹ میں اثر رکھتے ہیں، مراعات حاصل کرنیوالوں میں پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے کفایت شعاری مہم کے تحت پاکستان کے امراء، پارلیمنٹرینز، عدلیہ، سول، ملٹری بیورو کریسی، اشرافیہ اور وفاقی وزراء کی مراعات کم کرنےکا اعلان کیا ہے جس میں وفاقی حکومت کے اداروں میں 15فیصد اخراجات میں کمی، وفاقی وزرا، مشیر اور کابینہ ارکان کی مراعات کا خاتمہ، یوٹیلیٹی بلز کی خود ادائیگی، حکومت کو بڑی گاڑیوں کی واپسی، غیر ضروری غیر ملکی دوروں پرپابندی اور ورچوئل میٹنگ کو ترجیح، اکانومی کلاس میں سفر، جون 2024ءتک نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی،کابینہ کے پھیلائو میں کمی، سرکاری ملازموں کو ایک سے زیادہ پلاٹ پر پابندی اور سرکاری تقریبات میں ون ڈش شامل ہیں، جس سے حکومت کو 200ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی جو IMFشرائط میں بھی شامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس فیصلے پر بیورو کریسی اور اشرافیہ کس حد تک عمل کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا صرف 20فیصد امیر طبقہ ملکی دولت کا 50فیصد رکھتا ہے جبکہ غریب طبقے کے پاس ملکی دولت کا صرف 7فیصدہے جس سے ملک میں غریب اور امیر کے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے جسکی وجہ سے ملک میں مڈل کلاس لوگوں کی تعداد 2009ءمیں42فیصد سے کم ہوکر 2019میں36فیصد رہ گئی اور پاکستان جنوبی ایشیاء میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں افغانستان سے پہلے اور خطے کے 6ممالک سے نیچے چلاگیا۔ پاکستان میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کے باعث سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر بھی مالی مشکلات درپیش ہیں جس میں پنشن کا بوجھ حکومت کی برداشت سے باہر ہوگیا ہے اور ہر سال 25فیصد اضافے سے 4سال میں پنشن ادائیگی دگنی ہوجاتی ہے جبکہ ہماریGDPگروتھ بمشکل2سے 3فیصد سالانہ ہے۔ 2016-17میں پنشن بجٹ 245 ارب روپے تھا جو 2021-22 ءمیں بڑھ کر 480 ارب روپے ،جو اخراجات کا6.3فیصد ہوگیا اور2022-23 میں حکومت نے پنشن بجٹ مزید بڑھا کر 530ارب روپے رکھا ہے جو GDP کا6 فیصد ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کا سالانہ بجٹ صرف 600 ارب روپے ہے جبکہ پنشن بجٹ 530 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پنشن بجٹ میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مشرف دور حکومت میں پنشن فنڈ اسکیم کی تجویز دی گئی تھی جس میں ہر ماہ پنشن فنڈ کیلئے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی تجویز تھی لیکن سیاسی دبائوکی وجہ سے اس پر عملدرآمد نہ کیا جاسکا جس کے بعد پیپلزپارٹی کی 2008-13ءاور مسلم لیگ (ن) کی 2013-18 ءکی حکومتوں میں بھی پنشن فنڈ اسکیم کے قیام کیلئے کوششیں کی گئیں لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ایشیاء میں سنگاپور اور جنوبی کوریا پنشن کے کامیاب ماڈل ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان نے کسی حد تک سوشل انشورنس پنشن اسکیم کو اپنایا ہوا ہے۔ ملکی معاشی بحران کے پیش نظر فیصل آباد کے سابق ناظم میرے دوست رانا زاہد توصیف اور دیگر ممتاز بزنس مینوں نے اپنی تجاویز پیش کیں جس میں ورکرز کی پنشن اور میڈیکل کیلئے انشورنس اسکیم، بیرون ملک پاکستانیوں کی نئے فارن کرنسی ڈپازٹ پر مراعات، الیکٹرک گاڑیوںکی امپورٹ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا روڈ میپ، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری، فرنس آئل سے چلنے والے ناکارہ بجلی گھروں کی بندش، متبادل توانائی سے بجلی کی پیداوار، گردشی قرضوں کا خاتمہ، پرتعیش اشیا پرپابندی، زراعت اورمینوفیکچرنگ کےشعبوں کو فروغ دینا شامل ہے۔ بجٹ2022-23ءکے تجزیئے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے مجموعی ریونیو میں سب سے زیادہ سود کی ادائیگی 32فیصد، دفاعی اخراجات 17فیصد، ترقیاتی منصوبے 15فیصد، گرانٹس ٹرانسفر 9فیصد، حکومت چلانے کیلئے اخراجات 8یصد، سبسڈی 7 فیصد، ملٹری پنشن 4 فیصد، صحت 3 فیصد، تعلیم 2.3 فیصد، سول پنشن 1 فیصد اور تنخواہیں 1 فیصد شامل ہیں، اس لحاظ سے بجٹ میں کسی اضافی فنڈکی گنجائش نہیں۔IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر Kristalina Georgieva نے اپنے حالیہ انٹرویو میں پاکستان میں غریبوں کے بجائے امیروںکو مراعات اور سبسڈیز دیئے جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے اپنا ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اشرافیہ کو عوام کے ٹیکس کی رقم سے غیر معمولی مراعات دینے کے بجائے غریبوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینی چاہئے جس کیلئے حکومت نے IMF کے مطالبے پر 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کی وصولی کیلئے حال ہی میں منی بجٹ منظورکیا ہے۔ IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر نے واضح کیا کہ پاکستان کو بیرونی قرضوںکی ادائیگی کیلئے جون 2023ءکے بعد نئے IMF پروگرام میں جانا ہوگا لہٰذاقوم کو موجودہ IMF پروگرام کی بحالی کے بعد ایک اورIMF پروگرام کیلئے تیاررہناچاہئے۔

تازہ ترین