• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں جمہوری قوتیں اب تک اپنے قدم مضبوط کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور جہاں ماضی میں بیرونی طاقتوں کی حمایت اور تائید کے سہارے آمریت قائم رہی ۔آج جب ساری دنیا کے عوام محض اس احساس اور جذبے سے متحد ہو رہے ہیں کہ جمہوریت کا بول بالا ہو اور دشمنی کے جذبے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئےدفن کردیا جائے ، اسی حوالے سے پاک و ہند کے وزیراعظم کے انٹرویوز کی ہائی لائیٹس ہالینڈ کے ایک اخبار نے بھی شائع کی ہیں۔ ہالینڈ ہی کا ایک سنجیدہ اور دانشوروں میں مقبول روزنامہ ’’فوکس کرنٹ‘‘ بھی گاہے گاہے اپنے مضامین و تبصروں میں برصغیر کے بارےمیں اپنی رائے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی کے بارے میں اخبار لکھتا ہے۔ ’’اگر دونوں ملک چاہیں تو ہم(یورپی ممالک) مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ مسائل کا حل دونوں ممالک باہمی طور پر تلاش کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات نہ صرف علاقے بلکہ ساری دنیا کیلئے اہمیت رکھتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسیوں کے تعلقات میں تلخی کے اثرات علاقے سے باہر بھی مرتب ہوتے ہیں۔‘‘اخبار آگے چل کر لکھتا ہے’’بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی تقریروں اور بیانات میں کئی بار نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد برصغیر کے ہندوئوںاور مسلمانوں کیلئے اچھے دوستوں اور ہمسایوں کی طرح رہنا ممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات دیکھنے کے خواہش مند ہیں جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا یا اسپین اور پرتگال کے درمیان ہیں‘‘۔

موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں پائیدار امن و استحکام بے حد ضروری ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کا یہ علاقہ اور بھی خطرناک ہوگیا ہے جیسے کروڑوں (صحیح تعداد سوا ارب) انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں ، کسی بھی لمحے جنونی حکمرانوں کا دماغی توازن بگڑ جائے تو بستیاں ویران ہوسکتی ہیں اور بسے بسائے شہر آن کی آن میں قبرستان میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمالیاتی بلندیاں بھارت اور چین کی دوستی میں حائل نہیں ہوسکتیں تو کیا کارگل یا کشمیر کی چوٹیاں بھارت اور پاکستان کی دوستی کا راستہ روک سکتی ہیں؟ ہمارے دانشوروں کو آج اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے۔ آج نفرت اور دشمنی کے اندھیروں کی جگہ محبت اور دوستی کی روشنی کی از حد ضرورت ہے، اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ۔ یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان و بھارت دو خود مختار ملک ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری تہذیب و تمدن ہماری مشترکہ تاریخ، ہمارا کلچر اور ہماری زبان و ثقافت کے رشتے بہت مضبوط ہیں۔ ہمارے عوام کے جذبات، خیالات اور احساسات ایک ہیں تو ہمارے دل بھی ایک ہوسکتے ہیں جہاں ہمارے مسائل ایک ہیں وہاں ہمارے وسائل بھی ایک جیسے ہیں۔ ادب اور شاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں اور فلسفہ و فکر و فن کے ہمارے پیمانے بھی وہی ہیں، ہمارادرد و کرب بھی ایک خوشی و غمی بھی ایک ہے، سوچنے کا انداز بھی ایک اور ہمارے خواب بھی ایک ہیں، ان خوابوں کی تعبیر بھی ایک ہوسکتی ہے اگر ہم اپنے دلوں سے کدورت اور نفرت کا میل دھو ڈالیں۔ذرا ہمارے ہندوستانی بہن بھائی اس پر غور کریں کہ نور جہاں، ریشماں اور عابدہ پروین کے نغموں، فیض ،فراز اور قتیل کی غزلوں کے بغیر کیا ان کا ادب وفن مکمل ہوسکتا ہے؟ کیا مہدی حسن، غلام علی اور نصرت فتح علی کی آوازوں سے بھارت کا کوئی گھر ’’بچا‘‘ ہوا ہے؟ کیا پاکستان میںبھی محمد رفیع، طلعت، لتا منگیشکر ، آشا بھونسلے، مناڈے، مہندر کپور، جگجیت سنگھ، دلیر مہدی اور اب عدنان سمیع کی آوازیں نہیں گونجتیں؟ اور کیا یہ دو لازوال فنکار جن کا نام دلیپ کام اور لتا منگیشکر ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک پل کا کام نہیں دے رہے ؟ اگر یہ سب کچھ دونوں ملکوں کے عوام کے ہاتھوں انجام پار ہا ہے تو پھر حکومتوں کے درمیان جھگڑا کیسا ہے؟

گزشتہ پچاس برس ہم لڑتےرہے ہیں ایک مسئلہ بھی حل کر نہ پائے بلکہ مسائل کے ڈھیر میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے۔ اتنی جنگوں کے بعد اب ’’وقفہ امن‘‘ ضروری ہے تاکہ ہم پھر لڑسکیں.... جہالت اور بیماری کے خلاف مفلسی اور محتاجی کے خلاف، تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جنگ ہمیں مل کرلڑنا پڑے گی جس کے بغیر ہم لاکھ کوشش کریں کامیابی اور حقیقی ترقی کا ایک زینہ بھی نہیں چڑھ سکتے۔آج دونوں ملکوں کو ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہےجو عوام کو قریب لائے تاکہ ہم دہشت گردی، در اندازی ،تباہی ہی و بربادی اور تخریب کاری کی راہ چھوڑ کر تعمیر و ترقی اور تعاون و عمل کی راہ اختیار کرسکیں۔اس مقصد کیلئے جہاں دونوں ملکوںمیں جدوجہد کی ضرورت ہے، میڈیا کانفرنسوں کی ضرورت ہے وہاں اندرونِ ملک و بیرون ملک بھی ہمارے دانشوروں قلمکاروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور فنکاروں کے علاوہ تاجروں ،صنعت کاروں اور عوام کو مل جل کر ایسے اقدام کرنا ہونگے جس سے اتحاد، بھائی چارہ، یکجہتی اور یگانت کو فروغ حاصل ہو،ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ بھارت اور پاکستان کے وزرائےاعظم نےجہاں دوسرے محاذ کھول رکھے ہیں اس ’’امن کے محاذ‘‘ پر بھی غور فرمائیں گے، آج آپ کو ضمیر کی آواز پر توجہ دینی ہوگی۔

تازہ ترین