اندرونی اور بیرونی کھلاڑیوں کی ملی بھگت سے پنپنے والی مبہم سازش نے عمران خان کی حکومت تو ختم کردی لیکن اس ایک سال کے دوران ملک انتظامی، اقتصادی، سیکورٹی اور دیگر کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔ اگرچہ اس متنازع حکومتی تبدیلی سے بہت سی توقعات وابستہ کی گئی تھیں لیکن وہ سب کی سب زمیں بوس ہو چکی ہیں۔ آج مستقبل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تاریک دکھائی دیتا ہے۔
ریاستی امور کے ساکت و جامد ہوجانے سے اس مایوسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو خان کی حکومت کے خاتمے سے پھیلی تھی۔ میں نے اکثر ان ساختی عناصر کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے تبدیلی کو ضروری سمجھا گیا تھا۔ ان کا تعلق اس سمت سے تھا جواس وقت کی حکومت نے اختیار کر لی تھی تاکہ ریاست کو حقیقی معنوں میں آزادی نصیب ہو سکے اور جیسا بھی بیرونی دبائو اور اندرونی سازشیں ہوں، ایسے فیصلے کئے جاسکیں جو عوام کے مفاد اور خواہشات سے مطابقت رکھتے ہوں۔
اختلاف کی لکیر اس وقت نمایاں طور پر گہری ہوئی جب اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ میں وزیر اعظم نے خطے کے ممالک، بشمول روس، تک رسائی کی بات کی جب کہ عسکری قیادت امریکہ نواز راستے پر ہی اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی تھی۔ امریکہ نواز پالیسی کی وجہ سے ملک میں انتشار اور تقسیم تھی۔ ریاست کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اس کی وجہ سے ریاست ایسا راستہ اختیار نہیں کر سکتی تھی جو اس کے تزویراتی مفاد میں ہو۔ ضیا کے مارشل لا کی مغرب نے توثیق کی اور یوں ملک سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ کا حصہ بن گیا۔ مشرف آمریت نے ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان پر ڈومور کا مسلسل دبائو رہا۔ اس پر اپنے دیرینہ دوست، چین کے ساتھ تعلقات محدود رکھنے کا بھی دبائو تھا۔ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان اختلاف نے اس عمل کو شروع کر دیا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی اور پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکی تزویراتی اہداف کی راہ پر چل نکلا۔
اس پیش رفت کا ایک پریشان کن پہلو معاشرے کے سوچ سمجھ رکھنے والے حلقوں میں فکری دیانت کا انتہائی فقدان ہے۔ وہ ریاست کے اہداف اور امکانات کا غیر جانبدار تجزیہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ آج میڈیا کے وہ بڑے بڑے نام خاموش ہیں جنھوں نے دہائی دے رکھی تھی کہ خان کی حکومت کو ہٹایا جائے کیوں کہ وہ ’’اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے‘‘ قائم ہوئی تھی۔ درحقیقت وہ سازش سے قائم ہونے والی موجودہ حکومت کے پرجوش حامی بن چکے ہیں جو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے نتیجے میں مسلط ہوئی۔ اب ان کی حمایت سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ گویا اُن کا موقف کسی اصول کے تابع نہیں بلکہ اس کی بنیاد ذاتی مفاد ہے۔ اس دوغلی روش نے ان لوگوں کی اخلاقی ساکھ مجروح کرتے ہوئے انکی ماضی کی ایسی کاوشوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ اہل دانش سے محروم قوم سمت اور مقصدیت سے تہی دامن ایک ایسا ہجوم بن جاتی ہے جو ہمیشہ انتشار اور بدنظمی کا شکار رہتا ہے۔ ناقص تبدیلی کے تقریباً ایک سال بعد ملک تباہی سے بچنے کیلئے کوئی واضح سمت نہیں رکھتا۔ اس وقت یہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس دوران ریاستی مشینری کے بے دریغ استعمال اور خان کے خلاف سو کے قریب من گھڑت مقدمات کے اندراج کے باوجود ان کی مقبولیت کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔ بلاشبہ آج وہ ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ انہوں نے انتخابات پر مجبور کرنے اور فیصلہ کن عوامی مینڈیٹ کے ساتھ واپس آنے کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں قربان کر دیں۔ یہ ایک ایسا دلیرانہ فیصلہ تھا جس کا روایتی جاہ طلب سیاستدان تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود خان کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے اور عدالت عالیہ کے حکم کی تعمیل کرنے کی بجائے بھانت بھانت کے مقاصد رکھنے والا حکمران ٹولہ آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے انحراف کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔ حالانکہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے روز میں انتخابات کروانا آئینی طور پر لازم ہے۔
ملک میں جو چیز دیکھنے میں آ رہی ہے وہ ایک طرف اخلاقی گراوٹ ہے تو دوسری طرف آئینی اور قانونی فریم ورک کی بات ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے آغاز کے موقع پر لاہور میں تحریک انصاف کے جلسے پر بلا اشتعال اور غیر انسانی وحشیانہ کارروائی مجرمانہ اور فسطائی ذہنیت کی علامت ہے۔ یہ ٹولہ انتخابی شکست سے بچنے کیلئے ملک میں افراتفری پھیلانے پر تلا ہوا ہے۔ ایک طرف کچھ من پسند لیڈروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں پر بے بنیاد الزامات کی سنگ باری کرتے رہیں، دوسروں کو سیاسی سرگرمیوں کی بھی آزادی نہیں جس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔
یہ نہ تو انصاف ہے اور نہ ہی اس میں ایسی اقدار کو پروان چڑھانے کی خواہش کی جھلک ملتی ہے جس میں لیڈروں کی جانچ ان کے موقف، عوامی مقبولیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہو، نہ کہ اپنے دور اقتدار میں روا رکھے گئے جرائم کی بنیاد پر۔ وہ جرائم جنھیں فوجی آمروں کے سہولت کردہ این آر او نامی قالین کے نیچے چھپا دیا گیا۔ اس طرح اُنھیں مزید لوٹ مار کرنے کی شہ بھی مل گئی۔ انتخابات کو پوری دنیا میں کسی بھی لیڈر کے حق حکمرانی کی جانچ کا پیمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں انتخابات ایسا چیلنج پیش کر رہے ہیں جسے قبول کرنے سے حکمران اشرافیہ گریزاں ہے کیوں کہ ان کے نتیجے میں ان کا ہمیشہ کے لئے سیاسی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود یہ لیڈرغیر یقینی پن کی فضا گہری کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بے چینی کے اس موسم میں پاکستان کی سلامتی کو چیلنج درپیش ہیں۔ اس کا مستقبل آئین کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے ہلکا سا انحراف بھی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام کا فیصلہ کن مینڈیٹ رکھنے والی منتخب شدہ حکومت ہی ملک کو جرائم اور بددیانتی کی اس تاریکی سے نکال سکتی ہے۔ اس سے کم اور کچھ بھی کام نہیں دے گا۔