• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران حکومت کو وقت سے پہلے گرانا شہباز شریف کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ شہباز شریف کی وزیراعظم بننے کی جلدی نے مسلم لیگ ن کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اگر عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو شاید آج تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔

عمران حکومت کو اپنے وزن سے گرنے دینا چاہئے تھا۔اگر عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو نہ ہٹایا جاتا تو آج خراب حال معیشت کا سارا بوجھ تحریک انصاف کے کندھوں پر پڑتا مگر مسلم لیگ ن کی جلد بازی نے تحریک انصاف کا سارا ملبہ اپنے اوپر ڈلوالیا ہے۔

عمومی تاثر ہے کہ فیض حمید کو چیف بننے سے روکنے کے اور بھی بہت سے راستے تھے مگر مسلم لیگ ن نے حکومت حاصل کرکے سب سے کٹھن راستے کا انتخاب کیالیکن حقائق اسکے برعکس ہیں۔اگر شہباز شریف عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کو گرانے پر راضی نہ ہوتے تو آج ہم ایک دیوالیہ ملک میں بیٹھے ہوتے۔

جہاںڈالر کی قیمت 500سے زیادہ ہوتی اور پاکستان بند گلی میں داخل ہوچکا ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کو ذاتی طور پر کبھی وزیراعظم بننے کی جلدی نہیں رہی،غلام اسحاق خان کے دور سے لے کر جنرل (ر) راحیل شریف تک متعدد مرتبہ وزارت عظمیٰ کی پیشکش پر شہباز شریف نے معذرت کرلی اور اپنے بھائی کے ساتھ کو ترجیح دی۔

شاید شہباز شریف نومبر2022کے آخری دو ہفتوں کا کبھی خود تذکرہ نہ کریں ،مگر شہباز شریف کے علاوہ کوئی بھی دوسرا شخص ہوتا ،وہ حالات کے سامنے سرنڈر کرنے کو ترجیح دیتا۔مگر شہباز شریف جو زبان میاں نوازشریف کو لندن ایون فیلڈ میں دے کر آئے تھے۔

آرمی چیف کی تعیناتی میں اس پر من و عن عمل کیا۔دو مرتبہ مارشل لاء لگانے کی بھی دھمکی دی گئی مگر شہباز شریف اپنے بھائی کے فیصلے پر ڈٹ گئے۔

نومبر 2022کا آخری ہفتہ شہباز شریف کے سیاسی کیرئیر کا کٹھن ترین ہفتہ تھا مگر تب بھی شہباز شریف نے اقتدار کے بجائے اپنے بھائی اور جماعت کو ترجیح دی۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کو مدت پوری کرنے دے دی جاتی تو شاید حالات مختلف ہوتے وہ غالباً حالات کا درست ادراک نہیں کر پا رہے ۔عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس میں موجودگی کے ہر دن کی پاکستان بہت بھاری قیمت ادا کررہا تھا۔

عمران حکومت تو شاید اپنے وزن سے نہ گرتی مگر ان کے وزن سے پاکستان کے بنیادی ستون ضرور گر جاتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن نے اس فیصلے کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن پاکستان کو بچانے کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔اگر عمران خان مزید چند ہفتے رہ جاتے تو مسلح افواج کے سربراہ کے حوالے سے بھی ایسے فیصلے لے جاتے ،جس سے ادارے کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ۔

شہباز شریف کی مسلم لیگ ن کے لئے لازوال خدمات ہیں۔میاں نوازشریف کے بعد پنجاب میں شہباز شریف نے بہت محنت اور دیانت سے پارٹی کو مضبوط کیا ہے۔میاں نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن میں سب سے زیادہ شہباز شریف کی قدر کی جاتی ہے۔

پنجاب میں آنے والی ہر حکومت شہباز گورننس ماڈل کو بنچ مارک(معیار) مقرر کرتی ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جب سے شہباز شریف نے مرکزی حکومت سنبھالی ہے ،شہباز گورننس ماڈل کی اسپیڈ بہت متاثر ہوئی ہے۔جب شہباز شریف پنجاب میں تھے تو تمام فیصلوں میں خود مختار تھے۔کسی کے مشورے ان کے فیصلوں میں رکاوٹ نہ ڈالتے تھے۔

پنجاب آج جس شکل میں نظر آتا ہے،یہ شہباز شریف کی خود مختار گورننس پالیسی کا شاخسانہ ہے۔مگر مرکزی حکومت میں حالات یکسر مختلف ہیں۔شہباز شریف کو ہر کام سے پہلے پوری پی ڈی ایم سے مشورہ لینا پڑتا ہے۔بلکہ سانس بھی پی ڈی ایم جماعتوں کے مشورے سے لی جاتی ہے۔

آج شہباز اسپیڈ تبدیل ہوکر پی ڈی ایم اسپیڈ بن چکی ہے۔وفاقی حکومت کی کارکردگی کی ہر طرح کی ذمہ داری تمام بر سر اقتدار جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

پیپلزپارٹی،جے یو آئی (ف) وفاقی حکومت میں پوری طرح شریک ہیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ عمران خان کو نکالنے کا کریڈٹ پوری پی ڈی ایم لے اور خراب معیشت اور گورننس کی ذمہ داری شہباز شریف پر ڈال دیں۔باجوہ رجیم کا اختتام اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا کریڈٹ پی ڈی ایم لے اور شہباز شریف کوڈس کریڈٹ کر دیاجائے۔

آج اگر پاکستان مزید تباہ ہونے سے بچا ہے تو اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے۔وقتی تنقید ضرور ہورہی ہے۔مہنگائی کی وجہ سے عوام کاغصہ بجا ہے ۔لیکن آئندہ چند ماہ میں جب پاکستان کی معیشت دوبارہ اپنے ٹریک پر گامزن ہوگی اور عوام کو ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا ۔پھر تمام حقائق سامنے آئیں گے کہ ایک نااہل شخص نے معیشت کے ساتھ کیا مذاق کیا تھااور شہباز شریف نے کس حال میں پاکستان کو سنبھالا تھا۔اپنی ذاتی سیاست داؤ پر لگا کر شہباز شریف نے پاکستان کے لئے جو قربانی دی ہے،تاریخ دان اس پر ضرور لکھے گا۔

شہباز شریف خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں ایسے حالات میں حکومت ملی جب پاکستان کا برا وقت چل رہا تھا۔اس برے وقت کو ہم سب مل کر ختم کرسکتے ہیں۔معیشت کو دوبارہ ٹریک پرلانے کےلئے پوری قوم کو متحد ہونا ضروری ہے۔

تازہ ترین