• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کے واضح احکامات کے باوجود وفاقی حکومت تاحال اس پر آمادہ نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا معاملہ بھی ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے معاشی و کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں جب کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے حکومت نے برآمدی شعبے کو دیا جانے والا مسابقتی انرجی ٹیرف پہلے ہی ختم کر دیا ہے ،جب کہ شرح سود اور جی ایس ٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سگریٹ، میٹھے مشروبات، جائیداد، بیرون ملک فضائی سفرپر ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی مزید بڑھا دیئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بینکوں کی آمدنی پر بھی لیوی لگنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو 7470 ارب روپے کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں 130ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی یا کسی دوست ملک کی فوری امداد سے ہماری مشکلات ختم ہو جائیں گی ،حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ۔ ہم اگر اس بحران کو اصلاحات کے ایک موقع کے طور پر دیکھیں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سیاسی قیادت کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر معیشت کی بحالی کیلئے کم از کم دس سالہ متفقہ معاشی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایسا طریقۂ کار بنایا جا سکتا ہے جس کے تحت حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود معاشی پالیسی پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین پر مشتمل اعلیٰ سطحی بااختیار کمیٹی بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ طویل المدتی بنیادوں پر معیشت کی بحالی کیلئے برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، زرعی پیداوار میں اضافہ، ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فروغ اور آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بھارت اور بنگلادیش سے دگنی جبکہ سری لنکا سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس لئے جب تک ہم آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح میں کمی نہیں کریں گے غربت کے خاتمے اور قومی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اسی طرح برآمدات میں اضافہ بھی ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے ملک میں کوئی طویل المدتی صنعتی پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ علاوہ ازیں ایکسپورٹ انڈسٹری کو خطے کے دیگر ممالک سے مقابلے کیلئے مسابقتی نرخوں پر توانائی کی بلاتعطل فراہمی کا بھی کوئی مستقل نظام موجود نہیں۔دوسری طرف عالمی سطح پر پاکستان کو غیر ملکی خریداروں یا سرمایہ کاروں کیلئے زیادہ محفوظ ملک نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے ہمارے ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامناہے۔ ایکسپورٹ انڈسٹری پر عائد سیلز ٹیکس بھی برآمدات میں اضافے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس سلسلے میں 72گھنٹوں کے اندر سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے ’’فاسٹر‘‘ کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن اب وہ بھی کام نہیں کر رہا اور ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر معمول بن چکی ہے۔ برآمدات یا صنعتی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے ہمارا دیرینہ دوست چین ایک بہترین مثال ہے جس نے معیشت کو فروغ دینے کیلئے حکومت یا بیوروکریسی کی مداخلت کم کرکے بہترین نتائج حاصل کئے ہیں۔ چین کی معاشی ترقی کے معمار ڈینگ ژیاؤپنگ نے ابتدائی طور پر بیجنگ اور چار دیگر علاقوں میں خصوصی اقتصادی زون قائم کئے تھے،اگلے پانچ سال میں چین کے اقتصادی زونز کی تعداد بڑھ کر 35ہو گئی تھی جنہوں نے چین کی برآمدات بڑھانے اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں سی پیک کے تحت بننے والے اسپیشل اکنامک زونز تاحال مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکے۔ علاوہ ازیں ہمارے صوبوں کی سطح پر اقتصادی ترقی کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی یا مسابقت کی فضا موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے اگر صحت مند مقابلہ سازی کی فضا پیدا کی جائے تو ناصرف ہم اپنی صنعتی پیدوار اوراس کے حجم میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اس سے علاقائی سطح پر موجود عدم مساوات کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمیں اپنی زرعی پیداوار بھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ کہنے کی حد تک پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم ہر سال تقریباً چھ سے آٹھ ارب ڈالر کی گندم، کپاس، کھانا پکانے کا تیل، دالیں اور دیگر زرعی اجناس بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں۔ اس لئے جب تک ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک میں خوراک کی قلت رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں ایسی تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے ہم ملک کی ڈوبتی کشتی کو منجدھار سے نکال سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت معاشی ترقی کے ایجنڈے پر متفق ہو اور سیاسی اختلاف کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کی روایت ختم کی جائے۔

تازہ ترین