پاکستان کے ایوان بالا یا سینٹ کے قیام کو اسی برس 2023 میں 50 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ پچاس سال آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے بھی ہیں۔ کیوں کہ پہلے دو آئین جو بالترتیب 1956 اور 1962 میں بنائے گئے تھے منسوخ کر دیے گئے تھے۔ ابتدائی دنوں میں آئین پاکستان کے لیے یک ایوانی مقنّنہ یا صرف قومی اسمبلی پر انحصار کرتے تھے۔
1973کے آئین میں پہلی مرتبہ پاکستان کو دو ایوانی مقنّنہ دی گئی جو بار بار معطل ہونے کے باوجود اب تک چل رہی ہے۔زیرنظر مضمون میں ایوان بالا کی اہمیت اور ضرورت پر بات کی جاری ہے لیکن اس سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کو تھوڑا پس منظر بتا دیا جائے۔
تاریخی طور پر قانون سازی قبائلی اور جاگیر دارانہ معاشروں میں کسی منتخب ادارے کی ذمہ داری نہیں تھی۔ بادشاہتوں میں عام طور پر بادشاہ ہی قانون کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر لیا کرتے تھے اور مقامی سطح پر پنچایتیں یا جرگے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق قانون پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی تھیں۔ سلطنت روم میں کوئی دو ہزار سال پہلے ایک سینٹ کا ادارہ وجود میں آیا تھا، جس میں سینیٹر باہمی مشاورت کیا کرتے تھے اور طبقہ اعلیٰ سے تعلق رکھنے کے باوصف عموماً بادشاہ یا شہنشاہ تک کو للکار دیتے تھے۔
جولیس سیزر کا قتل کچھ سینیٹرز نے مل کر کیا تھا جو جولیس سیزر کی آمریت سے پریشان تھے۔ کوئی پانچ سو سال قبل جب یورپ میں علم و فن، ادب و ثقافت، سماج اور سیاست سب میں تیز تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں تو اس کے بعد برطانیہ، امریکا، فرانس وغیرہ میں بڑے انقلابات برپا ہونا شروع ہوئے اور دو تین سو سال میں دنیا نے جمہوری اصولوں اور اداروں کی بازگشت سننی شروع کی۔
اس تیز سماجی اور سیاسی ارتقاء کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں دو ایوانی مقنّنہ موجود ہے جس میں ایوان زیریں کو ایوانِ نمائندگان اور ایوانِ بالا کو سینٹ کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں دارالعلوم اور دارالامراء موجود ہیں، جب کہ بھارت میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے دو ایوان قانون سازی کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایوانِ زیریں کو قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا کو سینٹ کہا جاتا ہے۔ سینٹ کا ادارہ دراصل وفاق کی اکائیوں کو ایک بھرپور آواز فراہم کرتا ہے، کیوں کہ قومی اسمبلی میں ملک کی آبادی کے لحاظ سے نشستیں ہوتی ہیں جب کہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی جاتی ہے۔
اس طرح سینٹ وفاق میں صوبوں کی آواز بن جاتا ہے ،کیوں کہ اگر صرف قومی اسمبلی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہو تو اکثریتی صوبہ اپنی مرضی سے تمام قانون سازی کرسکتا ہے ۔ مثلاً پنجاب کی آبادی ملک میں پچاس سے پچپن فیصد کے درمیان ہے، اس کی بدولت وہ خود قومی اسمبلی میں تمام قانون سازی کرسکتا ہے۔ لیکن سینٹ میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی کی بدولت چھوٹے صوبے ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں، اس لیے عام طور پر وفاقی حکومت رکھنے والے ملک دو ایوانی مقنّنہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس لیے پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل کرے۔
1973 میں بننے والے آئین میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا اور سینٹ کو ایک اہم کردار سونپا گیا،اس کردار کی بدولت سینٹ تمام وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہے، پھر چوں کہ سینٹ میں متناسب نمائندگی کے ذریعے ارکان کو منتخب کر کے بھیجا جاتا ہے اس لیے اقلیتی گروہ یا جماعتیں نمائندگی حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتی ہیں۔
وفاقی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سینٹ کی ہے۔ اس لیے ایوان بالا کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی آئینی تقاضوں کے مطابق پوری ہو، جس سے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی میں اضافے کی توقع کی جاتی ہے۔ سینٹ میں ایک فنکشنل کمیٹی ہے جو اقتدار کی نچلی سطح ہے، جومنتقلی کے لیے قوانین میں تبدیلی کراتی ہے۔
اس کمیٹی کا کام یہ ہے کہ وہ مسلسل بنیادوں پر اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کا جائزہ لے اور رکاوٹوں کی نشان دہی کرکے ان کا تدارک کرے،جو آئین کی اٹھارویں ترمیم کے مطابق ہو ۔ جب 1973 میں ملک کا نیا آئین بنایا گیا اس وقت سینٹ میں پینتالیس (45) نشتیں رکھی گئی تھیں ، پھر 1977 میں ان کی تعداد بڑھا کر تریسٹھ ((63 کردی گئیں، 1985 میں سینٹ کے ارکان کی تعداد میں مزید اضافہ کر کے اسے 87 تک لے جایا گیا اور پھر جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد سو تک بڑھا دی گئی۔
2002 میں جاری کئے جانے والے قانونی ڈھانچے یعنی لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے سینٹ کے ارکان کی تعداد 100 تک بڑھا دی گئی تھی، جسے پھر صدر آصف علی زرداری کےدور میں 104 تک پہنچا دیا گیا، جب اٹھارویں ترمیم کے تحت ہر صوبے سے ایک اقلیتی رکن کی نامزدگی لازمی قرار دے دی گئی ے تھی، مگر پچیس ویں ترمیم کے تحت جب فاٹا یعنی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبے خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا تو فاٹا کی نشستیں ختم کر دی گئیں، اس طرح تعداد چھیانوے ہو گئی۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کم از کم سترہ خواتین ارکانِ سینٹ کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت ہر صوبے کو 14 ارکانِ سینیٹ عام نشستوں پر منتخب کرنے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے لیے دو عام نشستیں ہیں ،جب کہ فاٹا کی آٹھ ضم ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں 2024 میں سینیٹ کے ارکان کی تعداد چھیانوے رہ جائے گی، جب فاٹا کے موجودہ ارکانِ سینٹ کی مدت مکمل ہو گی ،جن میں آدھے 2021 میں سبکدوش ہوچکے ہیں۔
اس طرح ہر صوبے کو چار ٹیکنو کریٹ یا علما کی نشستیں اور چار خواتین کی نشستیں دی گئی ہیں اور ایک اقلیت کی، اس طرح ہر صوبہ میں کُل ملا کر 23 سینٹرز ہیں اور اسلام آباد دو جنرل یا عام نشستوں کے ساتھ خاتون اور ایک اقلیتی رکن کا حامل ہے۔
1973 کے آئین کے مطابق سینٹ کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا، تاکہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بھی پارلیمان کا تسلسل جاری رہے ۔ لیکن جب جنرل ضیا الحق نے 1977 میں غیر آئینی طور پر مارشل لاء لگا کر اسمبلی کو تحلیل کیا تو سینٹ کی بساط بھی لپیٹ دی گئی تھی۔ اس طرح پاکستان کی پہلی سینٹ کو بھی بے آبرو کر کے نکالا گیا اور پارلیمان جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت کے سامنے کچھ نہ کر سکی۔
پچھلے پچاس سال میں سینٹ کو جب بھی کام کرنے کا موقع ملا اس نے وفاق میں صوبوں کی آواز کا کام کیا،چوں کہ ارکانِ سینٹ کو اظہار خیال کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی اس لیے ہم نے دیکھا ہے کہ فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک سے لے کر رضا ربانی اور اعتزاز احسن تک مختلف اوقات میں اپنی بات کھل کر کرتے رہے ہیں۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی وفاق کی خوب صورتی یہی ہوتی ہے کہ اس میں چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور اگر سینٹ کچھ ایسی چیزیں دیکھے جن سے صوبوں کے استحقاق مجروح ہورہے ہوں تو وفاقی حکومت کی توجہ اس جانب دلائے ،اس طرح وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات میں ایک طرح توازن برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
سینٹ اپنے اختیارات کی بدولت اگر چاہے تو نئی قانون سازی کی ابتداء بھی کرسکتی ہے اور قومی اسمبلی سے آنے والے منظور شدہ قانون پر سیر حاصل بحث بھی کرسکتی ہے اور اسے واپس قومی اسمبلی بھی بھیج سکتی ہے، جس کے ساتھ قانون میں تبدیلیوں کا کہا جاتا ہے، اگر قومی اسمبلی وہ تبدیلیاں کرکے سینٹ کو بھیج دے اور سینٹ مطمئن ہو تو قانون منظور کر لیتی ہے ورنہ نا منظوری کی صورت میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بل قانون نہیں بن سکتا، جب تک کہ اسے سینٹ کی منظوری حاصل نہ ہوجائے۔
اسی طرح سینٹ صوبوں کی مرضی سے ہی قانون پاس کرسکتی ہے ۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی لگتا ہے کہ سینٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی یہ مستحق ہے، خاص طور پر بہت سے فیصلوں میں حکومتیں خود سے قدم اٹھا لیتی ہیں اور سینٹ تو کیا قومی اسمبلی سے بھی نہیں پوچھتیں۔ مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق کا ملک کو افغان جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ ہو یا جنرل پرویز مشرف کا ایک بار پھر امریکا کی ہم نوائی کا فیصلہ، انہوں نے کبھی قومی اسمبلی یا سینٹ سے کچھ پوچھنے یا مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
حال ہی میں جب طالبان سے مذاکرات شروع کیے گئے تو جنرل فیض حمید نے اپنے طور پر ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا اور قومی اسمبلی اور سینٹ کے موجود ہوتے ہوئے بھی کبھی اُن کے سامنے اس بڑے فیصلے پر گفت و گو نہیں کی گئی۔ یک طرفہ کیے گئے اس فیصلے اور دیگر کئی فیصلوں کے نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ صرف سینٹ کے اختیارات میں مزید اضافہ کیا جائے اور اسے مزید موثر بنانے کی کوشش کی جائے۔ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی بناتے ہوئے شاذ و نادر ہی ملک کی سینٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔
پھر سینٹ کے انتخابات میں ہم دیکھتے ہیں کہ بیرونی مداخلت یا غیر سیاسی قوتوں کا عمل دخل رہتا ہے ،جس کی واضح مثال 2021 میں ہونے والے چیرمین سینٹ کے انتخاب تھے، جس میں حاصل بزنجو کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئے تھے ۔ وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت پارلیمان سے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن سینٹ کے ارکان کی تعداد کسی ایک وقت میں کُل وزراء کی تعداد کے ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی یعنی اگر کُل وزراء کی تعداد چالیس ہو تو اس میں سینٹ سے لیے جانے والے وزراء کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔ سینٹ کے انتخابات آئین کی دفعہ59 کے تحت ہوتے ہیں۔ سینٹ کے ارکان کی مدت رکنیت چھ سال ہوتی ہے لیکن ان میں سے آدھے تین سال بعد سبک دوش ہوجاتے ہیں۔
اگر کسی سینیٹر کے استعفے یا وفات کے نتیجے میں نشست خالی ہوجائے تو ضمنی انتخاب ہوتے ہیں لیکن منتخب ہونے والے سینیٹر صرف باقی ماندہ مدت ہی پوری کرپاتے ہیں۔ چیرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کی مدت تین سال ہوتی ہے اور انہیں بار بار منتخب کیا جاسکتا ہے جیسا کہ وسیم سجاد کو چار مرتبہ سینٹ کا چیرمین منتخب کیا گیا ۔ اب تک سینٹ کے تین چیرمین صدر پاکستان بھی رہ چکے ہیں۔
پہلے غلام اسحاق خان 1985 سے 1988 تک تین سال چیرمین سینٹ اور پھر 1993 تک پانچ سال صدر پاکستان رہے ۔ وسیم سجاد نے دو دفعہ قائم مقام صدر پاکستان کا عہدہ بھی سنبھالا۔ پہلے 1993 میں غلام اسحاق خان کے استعفے کے بعد چار ماہ صدر رہے اور پھر فاروق لغاری کے استعفے کے بعد 1997 میں ایک ماہ صدر رہے ۔ اس طرح سینیٹ کے چیرمین محمد میاں سومرو نے 2008 میں جنرل پرویز مشرف کے استعفے کے بعد تین ہفتے قائم مقام صدر کی ذمہ داری نبھائی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ چیرمین سینٹ رہتے ہوئے محمد میاں سومرو نے نومبر 2007 سے مارچ 2008 تک نگراں وزیر اعظم کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ اس طرح محمد میاں سومرو پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو وزیر داخلہ، صدر اور سینٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ سینٹ کی خاتون ڈپٹی چیرمین رہنے کا اعزاز ڈاکٹر نورجہاں پانیزی کو حاصل ہے جو 1991 سے 1994 تک سینٹ کی نائب سربراہ رہیں ۔ سب سے طویل عرصے ڈپٹی چیرمین رہنے والے جان محمد جمالی ہیں جو 2006 سے 2012 تک سینٹ کے نائب سربراہ رہے۔
اب سینیٹ ایک مستحکم ادارہ ہے اور اس کا وفاق میں اہم کردار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کو مزید مضبوط کیا جائے اور اس کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔ وفاق میں صدیوں کی اس آواز کو مزید بلند اور طاقت ور ہونا چاہئے، ورنہ صوبوں میں احساس محرومی کے تدارک کے لیے کوئی اتنا موزوں ایوان نہیں ہے۔ اس ادارے کے انتخابات کو بھی مزید شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر بار الیکشن کے وقت خرید و فروخت کی افواہیں گردش نہ کریں ۔
بہتری کی تجاویز
اس وقت سینٹ کا ادارہ وفاق میں صوبوں کی آواز تو ہے مگر اس آواز کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت تک مشکل بل کہ نا ممکن نظر آتا ہے جب تک کہ کچھ بنیادی تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ مثلا سب سے پہلے تو سینٹ کے انتخاب کے طریقے کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے سینیٹر منتخب کرانے کے بجائے براہ راست انتخاب کا طریقہ اپنانا بہتر ہوگا۔ یعنی جس طرح عوام اسمبلی کے نمائندے منتخب کرتے ہیں اسی طرح سینیٹ کے ارکان کو بھی عوام کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور خود منتخب ہونے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔
اس وقت سینیٹ کے ارکان منتخب ہونے کے لیے عوام کے سامنے نہیں بل کہ جماعتوں کے رہ نماؤں کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کروڑوں روپوں میں سینیٹ کی نشستیں فروخت ہوتی ہیں،گو کہ کچھ امیدوار اپنی اہلیت کی بنا پر بھی لے لیے جاتے ہیں لیکن دیگر ارکان کے انتخاب اور نامزدگی وغیرہ میں بد عنوانیاں کا احتمال اس وقت بہت زیادہ ہے ،جسے کم کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر ہر صوبے سے پچیس سینیٹر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوں تو غالباً زیادہ بہتر طریقے سے صوبوں کے مسائل پارلیمان تک پہنچ سکیں گے اور وفاق میں صوبوں کی آواز مزید مستحکم ہونے کا امکان ہوگا۔
اٹھارویں ترمیم کے لیے سینٹ کا کردار
ملک میں صوبوں کے حقوق کے لیے 1973 کے آئین کے بعد جو سب سے اہم ترميم ہوئی وہ اٹھارویں ترمیم ہے، جس کے ذریعے اب وفاق میں صوبے زیادہ بہتر کردار ادا کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور ان کے مالی وسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اس ترمیم کے لیے کام کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی ایک سینیٹر رضا ربانی ہی کررہے تھے اور اُن کے ساتھ کئی دیگر سینیٹر بھی اس مجلس میں موجود تھے، جنہوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ صوبوں کے حقوق کا موثر طریقے پر تحفظ ہو سکے اور اختیارات زیادہ سے زیادہ پیمانے پر صوبوں کو منتقل کیا جائے۔ اس ترمیم کے تحت کئی وفاقی وزارتیں صوبوں کو منتقل کر دی گئیں لیکن جن وزارتوں کو وفاق میں ختم کیا جانا تھا وہ نہ ہو سکیں،یہ وزارتیں نام بدل کر اب بھی وفاق پر ایک بوجھ ہیں۔
مثال کے طور پر تعلیم کا شعبہ ہر سطح پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، اب وزارتِ وفاقی تعلیم کا کام صرف وفاق کے زیرِ انتظام تعلیمی اداروں کو دیکھنا ہے مگر اب بھی یہ وزارت خزانے پر بوجھ ہے اور بلاوجہ صوبوں کے تعلیمی کام میں یکساں نصاب جیسے شوشے کے ذریعے مداخلت کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
سینٹ میں بڑی پارٹیوں کی بالادستی
سینٹ کو وفاق میں صوبوں کی آواز کہا جاتا ہے لیکن ایک مسئلہ جو اس آواز کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ سینٹ میں عام نشستوں کے علاوہ مخصوص نشستوں کا ہے۔ ان نشستوں کے ذریعے بڑی جماعتیں تمام مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کام باب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جنرل ضیاء الحق نے جو ٹیکنو کریٹس یا علماء کی نشستیں متعارف کرائیں وہ بڑی جماعتیں اپنی عددی اکثریت کی بنا پر حاصل کرلیتی ہیں، یہی حال خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کا ہوتا ہے۔ اس طرح تقریبا ایک تہائی نشستیں صوبوں کی آواز بننے کے بجائے صرف دو بڑی جماعتوں کی آواز بن کر رہ جاتی ہیں۔
اگر ان مخصوص نشستوں پر انتخاب کے طریقے کو بہتر بنایا جائے اور ان پر بھی متناسب نمائندگی کے تحت انتخاب ہوں تو چھوٹی جماعتوں کی نمائندگی سینٹ میں بڑھ سکتی ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی چھوٹی جماعتیں اپنے صوبے کے حقوق کے لیے بڑی جماعتوں کی نسبت زیادہ مؤثر آواز بن سکتی ہیں، ان کو تقویت ملے گی۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق سینیٹ میں بڑی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد صوبوں کے حقوق کی زیادہ بات نہیں کرتیں، کیوں کہ انہیں مقتدر حلقوں کے رد عمل کا خدشہ ہوتا ہے جو مرکزیت کے داعی ہوتے ہیں۔
رضاربانی: شان دار ترین دور
سینٹ کی تاریخ میں بلا شبہ سب سے موثر اور سرگرم دور، رضا ربانی کی سربراہی میں آیا۔ انہوں نے سینٹ کو جس طرح چلایا وہ ایک شان دار باب ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اس دور کو یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی مدّت کے دوران حزب اختلاف کے ساتھ بڑا متوازن رویہ رکھا، بل کہ وقتاً فوقتاً خود اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرتے رہے کہ سینٹ کے سربراہ کی غیر جانب داری مثالی ہونی چاہیے۔
انہوں نے صوبوں کی آواز کو زیادہ طاقت ور بنانے کے لیے بار بار کوششیں کیں اور ان کوششوں میں بڑی حد تک کام یاب بھی ہوئے ۔رضا ربانی کی سربراہی کے دور میں ہی جب خیبر پختون خواہ کے لیے ایک خاص کمیٹی بنائی گئی تو اس نے بڑے موثر طور پر کام کیا اور صوبے کے مسائل کو بڑے اچھے طریقے سے پیش کیا گیا۔
غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی صوبے نے ایوانِ بالا میں یہ درخواست کی تھی کہ اس کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ،جس پر رضا ربانی نے فوری عمل کیا۔ کاش کہ اس طرح کی کمیٹیاں دیگر صوبوں کے لیے بھی بنائی جاتیں جو اپنے اپنے صوبوں کے لیے سیر حاصل گفت و گو کرتیں اور اُن مسائل کو اجاگر کرتیں جن کا شکار یہ صوبے رہے ہیں۔
بجٹ سازی اور منظوری میں سینٹ کا کردار
اس وقت بجٹ سازی اور اس کی منظوری میں ایوان بالا کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ گو کہ تمام قوانین سینٹ کی منظوری سے ہی قانون بنتے ہیں لیکن وفاقی حکومت کا سالانہ بجٹ یعنی آمدن و اخراجات کا گوشوارہ سینٹ کی منظوری کے بغیر ہی پاس ہو جاتا ہے۔
اس طرح بجٹ میں رد و بدل یا بہتری کے لیے صوبوں کی کوئی موثر آواز نہیں ہوتی۔ اگر بجٹ سازی اور اس کی منظوری کے لیے سینٹ کے کردار کو شامل کیا جائے تو یقیناً اس سے صوبوں کو فائدہ ہوگا یعنی صوبوں کی طرف سے کہا جاسکے گا کہ ہمیں فلاں فلاں تخمینے پر اعتراض ہے یا یہ کہ صوبوں کے لیے اس طرح کے منصوبے بجٹ میں شامل کے جائیں۔
دنیا کے کئی ممالک جن میں وفاقی حکومتیں ہیں، وہاں بجٹ کی منظوری ایوان بالا سے بھی لینا لازمی ہوتا ہے۔ مثلا امریکا کا بجٹ سینٹ کی منظوری کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا،جس کے نتیجے میں پریشانی کا سامنا بھی ہوتا ہے لیکن امریکا میں کبھی یہ بات نہیں کہی گئی کہ صرف ایوانِ نمائندگان یعنی ایوان زیریں سے ہی بجٹ کی منظوری لی جائے ۔ پاکستان میں سینٹ کے کردار کو بجٹ سازی میں اور اس کو منظوری میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔