سینیٹ، پاکستان کی پارلیمان کا ایوانِ بالا ہے جو ملک کے دیگر سیاسی و آئینی اداروں کی طرح ہمیشہ بحرانوں کی زد میں رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے جس میں سینیٹ کے علاوہ دوسرا ایوان قومی اسمبلی ہے جو ایوانِ زیریں کی حیثیت رکھتا ہے۔دوایوانی مقننہ کا یہ نظام صرف پاکستان تک مختص نہیں ہے بلکہ دنیا کے کم و بیش سب ہی وفاقی ممالک جن کی تعداد اب 25 ہوچکی ہے، دو ایوانوں پر ہی مشتمل مقننہ کے حامل ہیں۔
وفاقیت کا فلسفہ
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ وفاقی ملکوں میں مقننہ دو ایوانوں پر مشتمل کیوں ہوتی ہے؟اس سوال کا جواب وفاقیت کے فلسفے میں مضمر ہے جس کی رو سے وفاقی نظام ایک جمہوری نظام ضرور ہے مگر ایسے ملکوں میں جہاں مختلف النوع نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع پایا جاتا ہے،اور یہ تنوع مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے متمیز بھی کرتا ہو، وہاں یہ مختلف علاقے لسانی و ثقافتی وحدتوں کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ جن کو اصولی طور پر یکساں حیثیت اور خودمختاری کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔
یہ وحدتیں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹی یا بڑ ی ہوسکتی ہیں ،چنانچہ صرف جمہوری اصول کو پیش نظر رکھا جائے تو چھوٹی وحدتوں کو ملک کے مرکزی اداروں میں خاص طور سے مرکزی مقننہ میں اپنی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی حاصل ہوگی جس میں جمہوری اصول کی پاسداری تو ہوجائے گی مگروفاقیت کا فلسفہ وحدتوں کی برابری کے اصول کو بھی بنیادی نکتے کے طور پر پیش نظر رکھتا ہے اُس کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔
دوسری طرف اگر صرف وفاقیت ہی کے اصول کو سامنے رکھ کر مرکزی مقننہ تشکیل دی جائے تو پھر مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ بڑی وحدتوں اور چھوٹی وحدتوں دونوں کی نمائندگی برابر رکھنی پڑے گی جو جمہوریت کے اصول کے منافی ہوگا۔اس صورت حال کا حل وفاقی ملکوں نے یہ نکالا ہے کہ وہ اپنی مقننہ کے دو ایوان تشکیل دیتے ہیں، ایک ایوان وحدتوں کی برابری کے اصول پر تشکیل دیا جاتا ہے جس کو ایوان بالا کہا جاتا ہے۔
امریکہ میں یہ ایوان سینیٹ، ہندوستان میں راجیا سبھا اور پاکستان میں سینیٹ کہلاتا ہے۔ وفاقی مملکتوں کا دوسرا ایوان جمہوریت کے اصو ل کی نمائندگی کرتا ہے، اس کو ایوانِ زیریں کہا جاتا ہے اور اس میں ہر وحدت کو اس کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ امریکہ میں یہ ایوان، ایوانِ نمائندگان(House of Representatives)، ہندوستان میں لوک سبھا اور پاکستان میں قومی اسمبلی کہلاتا ہے۔
دنیا کی مختلف وفاقی مملکتوں میں مقننہ کے دونوں ایوانوں کے اختیارات کا کوئی ایک مخصوص طریقہ نہیں پایا جاتا۔بعض ملکوں میں ایوانِ بالا کو زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، بعض میں ایوانِ زیریں کو،اور بعض میں دونوں ایوانوں کے اختیارات کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔ پاکستان کا ایوانِ بالا یعنی سینیٹ اختیارات، معاملے میں ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی سے کم اختیار کا مالک ہے جس کی تفصیل آگے چل کر بیان کی جائے گی۔
سینیٹ کی ضرورت اور ہماری آئینی تاریخ
پاکستان میں دو ایوانی مقننہ کا نظام 1973ء کے دستور کے نفاذ کے بعد ممکن ہوا جبکہ اس سے قبل 1956ء اور 1962ء کے دساتیر پاکستان کو ایک وفاق تسلیم کرنے کے باوجود ایک ہی ایوان یعنی قومی اسمبلی کے حامل رہے۔ان دو دساتیر کا ایک ایوانی مقننہ کے حامل ہونے کا سبب یہ تھا کہ 1955ء میں مشرقی پاکستان کی، مغربی پاکستان کے مقابلے میں عددی برتری کو غیر مؤثر بنانے کے لیے دو اقدام کیے گئے۔
پہلا تو یہ کہ ملک کے مغربی حصے میں جو تین صوبے (سندھ،پنجاب اور سرحد)اور دس ریاستیں نیز بعض دیگر علاقے شامل تھے، ان سب کو ادغام کے بعد مغربی پاکستان کا صوبہ وجود میں لایا گیا اور دوسرا یہ کہ مغربی پاکستان کا صوبہ بنانے کے بعد یہ دلیل اختیار کی گئی کہ چونکہ ملک میں اب صرف دو صوبے ہیں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان،لہٰذا ان دونوں کو مقننہ میں برابر نمائندگی دی جائے گی۔
اس اصول کو برابری یا پیریٹی(Parity) کا نام دیا گیا۔ پیریٹی کا یہ نظام مشرقی پاکستان کے ساتھ سراسر زیادتی کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ اس کی آبادی ملک کی کُل آبادی کے 54فیصد کے قریب تھی جبکہ مغربی حصے کے تینوں صوبوں، دس ریاستوں اور دیگرخطوں کی کُل آبادی ملکی آبادی کے 46 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔
ایک مرتبہ جب پیریٹی کا اصول وضع کرلیاگیا توپھر یہ کہا گیا کہ ملک میں صوبے ہی دو ہیں اور دونوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی برابر دی گئی ہے، لہٰذا اب ایوان بالاکی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی جو وجود ہی میں اس لیے لایا جاتا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر بننے والے ایوانِ زیریں کے مقابلے میں ایوانِ بالا میں وحدتوں کی برابری کے اصول کو برتتے ہوئے ان کو یکساں نمائندگی دی جاتی ہے۔ پھر کہا گیا کہ اب چونکہ قومی اسمبلی ہی میں دونوں صوبوں کو برابر نمائندگی حاصل ہوگئی ہے لہٰذا برابری کی بنیاد پر بننے والے ایوانِ بالا کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ 1956ء کا دستور پیریٹی کے اسی مصنوعی اصول کی بنیاد پر بنایا گیا۔
پیریٹی کا یہ نظام بعد ازاں 1962ء کے دستور میں بھی برقرار رہا۔ البتہ 1973ء کا آئین پاکستان میں وفاقیت کے اصول کی قبولیت کی طرف ایک اہم قدم تھا۔یہ بھی ہماری تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ جب تک مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ رہا ہم اس کی عددی برتری کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اُس زمانے میں مغربی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ جو سِوِل اور عسکری اشرافیہ کے ساتھ اشتراکِ فکرو عمل کا حامل تھا،مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر اس کا حق دینے کی مزاحمت اس دلیل کی بنیاد پر کرتا تھا کہ اس طرح ملک کا مشرقی حصہ مستقلاً سیاسی و انتظامی تسلط کا حامل بن جائے گا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ دلیل دریا برد کردی گئی اور باقی ماندہ پاکستان کا آئین صوبوں کی مختلف آبادیوں اور ان کی ازروئے آبادی نمائندگی کے اصول کو تسلیم کرنے کے بعد ہی وجود میں آیا۔ اس آئین میں قومی اسمبلی آبادی کے اصول کی نمائندگی کرتی تھی جبکہ سینیٹ وحدتوں کی برابری کے اصول کا مظہر ادارہ تھا۔
کتابِ دستور میں سینیٹ اپنی اس حیثیت کے ساتھ آج تک موجود ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اپنے نفاذ سے اب تک دستور دو مرتبہ معطل ہوا اور دونوں مرتبہ قومی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ کے وجود پر بھی خط تنسیخ کھینچ دیا گیا حالانکہ سینیٹ کو آئین نے مستقل ادارہ قرار دیا تھا جو ایک دن کے لیے بھی عدم وجود کا شکار نہیں ہوسکتا تھا، اور سینیٹ کو ایک مستقل ادارہ بنانے کے لیے آئین نے ایک خصوصی اہتمام کیا تھا۔
سینیٹ کا عدم تسلسل
آئین نے سینیٹ کے اراکین کی مدت چھ سال طے کی ۔ان اراکین کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی طرف سے ہونا تھا، یعنی سینیٹ بلاواسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر منتخب ہونے والا ادارہ تھا۔جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے اُس کی مدت پانچ سال رکھی گئی تھی لیکن صدر مملکت قومی اسمبلی کووزیراعظم کی سفارش پر پانچ سال سے پہلے بھی تحلیل کرسکتے تھے۔ قومی اسمبلی خواہ اپنی مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہوتی یا اس سے قبل، ہر دو صورت میں اسمبلی کا انتخاب تین ماہ میں ہونا قرار پایا تھا ، جس کا مطلب تھا کہ ایک قومی اسمبلی اور اور دوسری کے درمیان تین ماہ کی مدت ہوسکتی تھی، ان تین ماہ میں ملک میں کوئی قومی اسمبلی موجود نہ ہوتی۔
قومی اسمبلی کے برعکس سینیٹ ایک مستقل ادارہ تھا جو ایک دن کے لیے بھی غیر موجود نہیں ہوسکتا تھا۔ سینیٹ کو ایک مستقل ادارہ بنانے کے لیے یہ راستہ چنا گیا کہ پہلی مرتبہ جب اس کا انتخاب عمل میں آئے تو اس کے نصف اراکین تین سال پورے ہونے پر ریٹائر کردیے جائیں ۔جبکہ بقیہ نصف اراکین اپنی چھ سال کی مدت پوری کریں۔
تین سال بعدریٹائر ہونے والے اراکین کی جگہ جو اراکین منتخب ہوکر آئیں وہ آئندہ چھ سال سینیٹ کے رکن رہیں۔ سینیٹ کو مستقل ادارہ بنانے کے لیے جو انتظام کیا گیا اس کو بعد کے دو فوجی شب خونوں نے تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔1973ء کا آئین بننے کے بعد پہلی سینیٹ کا اجلاس 6اگست 1973ء کو منعقد ہوا۔ ایک ہفتے بعد یعنی 14اگست 1973ء کو آئین کا نفاذ عمل میں آیا اوریوں قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں نے آئین کے تحت اپنا کام شروع کیا۔لیکن 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیا ء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی انہوں نے آئین کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔
جس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ہی کو ختم کرڈالا۔ بعد ازاں انہوں نے 25فروری 1985ء کو غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد کیے۔20 مارچ 1985ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔اس دوران صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کا انتخاب بھی مکمل ہوچکا تھا اور یوں 21 مارچ 1985ء کوسینیٹ ایک مرتبہ پھر وجو د میں آگئی۔ اس کو سینیٹ کا پہلا اجلاس قرار دیا گیا او ایک مرتبہ پھر وہی ابتدائی طریقہ وضع کیا گیا کہ اس پہلی سینیٹ کے نصف اراکین کا تین سال بعد ریٹائر ہونا طے پایا تاکہ اس کے بعد سب اراکین اپنے اپنے چھ سال پورے کرنے کے راستے پر گامزن ہوجائیں۔
پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ کچھ اس طرح بحرانوں کی زد میں رہی ہے کہ ایک بحران کے ختم ہونے کے بعد بھی یہ بات کہنا مشکل ہوتی ہے کہ اب کوئی نیا بحران وجود میں نہیں آئے گا۔ ایسا ہی سینیٹ کی زندگی میں بھی ہوا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف او ر ان کے کور کمانڈروں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا، وزیراعظم نواز شریف گرفتار کرلیے گئے اور جنرل مشرف نے آئین کو ایک مرتبہ پھر تعطل اور التوا کی نذر کردیا۔اقتدار پر فائز ہونے کے دو روز بعد انہوں نے عبوری آئین کا حکم نامہ (Provisional Constitutional Order 1 of 1999)جاری کیا۔ وہ ملک کے چیف ایکزیکٹو بن گئے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ سینیٹ کو بھی ختم کردیا گیا۔
اقتدار میں آنے کے کوئی تین سال بعد جنرل مشرف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کروائے جن کے بعد ان اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر سینیٹ ’پہلی مرتبہ‘ منتخب ہوئی۔ اور چونکہ یہ ’پہلی‘ سینیٹ تھی، لہٰذا اس کے اراکین میں سے بھی ایک مرتبہ پھر تین سال مدت ہونے پر نصف اراکین ریٹائر ہوئے اور ان کی جگہ نئے اراکین منتخب ہوکر آئے ۔ یہ سینیٹ ہر تین سال بعد نصف نئے اراکین کی شمولیت کے ساتھ 2002ء سے اب تک زندہ ہے۔
سینیٹ کی اہمیت
ہمارے پارلیمانی نظام میں دوسرے ملکوں کے پارلیمانی نظام کی طرح مقننہ یا پارلیمان وہ بنیادی ادارہ ہے جو آئین کی روشنی میں قانون سازی کرتا ہے، قوانین پر عملدرآمد کی نگرانی کرتا ہے، پالیسیاں بناتا ہے اور اپنے اجلاسوں، نیز کمیٹیوں کے اندر ان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیتا ہے۔قومی اسمبلی یہ کام پورے ملک کو پیش نظر رکھ کر ملک کے جملہ شہریوں کے مفاد کے پیشِ نظر کرتی ہے۔ سینیٹ بھی یہی کام کرتا ہے لیکن سینیٹ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ قوانین اور پالیسیوں پر غور کرتے وقت ملک کے وفاقی نظام اور صوبوں کے مفادات کو کسی لمحے نظر انداز نہیں کرسکتا۔
دوسرے لفظوں میں جہاں قومی اسمبلی کا طرزِ فکر جمہوری اور قومی ہوتا ہے وہاں سینیٹ کا طرزِ فکر(Perception)جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی بھی ہوتا ہے۔ ملک کی پارلیمان میں سینیٹ صوبوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ صوبوں کے درمیان یا کسی ایک صوبے اور مرکز کے درمیان اختلاف کی صورت میں سینیٹ کا ایوان مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ہمارے آئین میں ایک اور اہم ادارہ کاؤنسل آف کامن انٹرسٹس کے نام سے موجود ہے جس کا کام ہی مرکز اور صوبوں کے اختلاف کو زیر بحث لانا اور ان کا حل تلاش کرنا ہے۔
آئین کی اٹھارہویں ترمیم نے کاؤنسل کے اختیارات میں مزید اضافہ کردیا ہے اور اب یہ ان امور پر جوکہ اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں،پالیسی سازی اور پالیسیوں پر عملدرآمدکی نگرانی بھی کرتی ہے۔کائونسل آف کامن انٹرسٹس کی رپورٹیں باقاعدگی کے ساتھ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کی جاتی ہیں(یا پیش کی جانی چاہئیں) ۔یہ ایک اور صورت ہے سینیٹ کی طرف سے وحدتوں کے مفادات پر ہر وقت نظررکھنے کی۔
سینیٹ اُن تمام مضامین پر قانون سازی کرسکتی ہے جو ازروئے آئین پارلیمان کے دائرہ کار میں آتے ہیں، البتہ قوانین سے متعلق وہ بِل کا تعلق مالیاتی امور سے ہوتا ہے۔وہ صرف قومی اسمبلی ہی میں پیش ہوسکتے ہیں اور قومی اسمبلی ہی میں ان پر رائے شماری کی جاتی ہے۔ 1973ء میں جب آئین تشکیل دیا گیا تھا اس وقت سینیٹ کو اسی مالیاتی بِل پر غور کرنے اور اس کو زیرِ بحث لانے کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا لیکن 1985ء میں آئین کا حصہ بننے والی آٹھویں ترمیم نے یہ گنجائش نکالی کہ مالیاتی بل سینیٹ میں زیر بحث تو آسکتا ہے لیکن سینیٹ کو اس پر کوئی فیصلہ صادر کرنے یا رائے شماری کا اختیار نہیں ہے۔
سینیٹ مالیاتی بل کو زیر بحث لانے کے بعد اپنی تجاویز مرتب کرسکتا ہے جوکہ بعد ازاں قومی اسمبلی کو زیر غورلانے کے لیے بھیجی جاسکتی ہیں۔مالیاتی بل، جس کی سب سے بڑی مثال ملک کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے، کو سینیٹ میں منظور کروانے سے احتراز اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہمارے آئین سازوں نے 1973ء میں یہ رائے قائم کی تھی کہ چونکہ سینیٹ براہ راست طور پر منتخب نہیں ہوتا لہٰذا اس کو مالیاتی بِلوں پر ووٹ دینے کا اختیار نہیں دینا چاہیے۔ مالیاتی بِلوں کے علاوہ اور کوئی بھی بِل ، خواہ وہ مرکزی موضوعات کی فہرست کے کسی بھی مضمون کے کسی بھی مضمون سے تعلق رکھتا ہو،وہ سینیٹ میں پیش بھی ہوسکتا ہے اور اس کے لیے سینیٹ کا ووٹ حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
کمیٹیوں کا نظام
پارلیمانی نظام میں کمیٹیاں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ عام طور سے ہمارے ٹیلیویژن کے ناظرین قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کی جھلکیاں اور تصویریں تو اسکرین پر دیکھتے ہیں مگر بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمان کا اصل کام تو ان کمیٹیوں میں ہوتا ہے جو مختلف وزارتوں اور مضامین کے حوالے سے تشکیل دی جاتی ہیں۔ جن ملکوں کی پارلیمان کی کمیٹیاں فعال ہوتی ہیں ان کا پارلیمانی نظام بھی بحیثیت مجموعی فعالیت کا مظہر نظر آتا ہے۔
یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی اور انتظامی امور ، قوانین کی ضرورت اور نوعیت، نیز موزوں پالیسیوں کی تیاری پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہیں۔ چنانچہ کمیٹیوں کے اندر زیادہ تر بحث تکنیکی پہلوئوں اور عملدرآمد کے لیے دستیاب اداروں اور دیگر وسائل پر ہوتی ہے۔ہماری سینیٹ میں جو مختلف کمیٹیاں کام کرتی ہیں خواہ وہ امورِ خارجہ،بنیادی حقوق، تعلیم، صحت یا اور کسی موضوع سے متعلق ہو ، اس کی کارکردگی کا بڑی حد تک انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کمیٹی کی سربراہی کس کے پاس ہے۔
سینیٹ کے بنیادی مسائل
1973ء سے اب تک ہماری سینیٹ کے جو مسائل وقتاً فوقتاً نمایاں ہوتے رہے ہیں ان میں سرفہرست سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار ہے۔ چونکہ سینیٹ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ذریعے منتخب ہوتی ہے لہٰذا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی خریدو فروخت کے ذریعے ایسے لوگ بھی سینیٹ میں پہنچ جاتے ہیں جن کا جمہوری مقاصد اور وفاقی طرز فکر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ سینیٹ میں مراعات کے حصول کے لیے اور سینیٹ کے پلیٹ فارم کو اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ انتخاب کے وقت بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ خود سینیٹ کے اندر چیئرمین کے انتخاب کا ہے جو خفیہ رائے دہی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ماضی میں ایک سے زائد مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا کہ چیئرمین کے انتخاب کے وقت بہت سے اراکین سینیٹ نے خود اپنی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف ووٹ ڈالا۔ ایسا یا تو انہوں نے کوئی رشوت حاصل کرلینے کی وجہ سے کیا یا پھر ایسے اشاروں پر کیا جو سیاسی اور آئینی نظام کا حصہ تو نہیں لیکن اس پر اثر انداز ہو نے کی بھرپور استطاعت رکھتے ہیں۔
سینیٹ کا ایک بڑا مسئلہ اس کا مالیاتی بلوں پر کوئی فیصلہ دینے سے روکا جانا ہے۔ یہ دلیل اپنی جگہ کچھ معنی ضرور رکھتی ہے کہ سینیٹ بلا واسطہ نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر منتخب ہوتی ہے لہٰذا اس کو بجٹ پر فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ہونا چاہئے ۔اگر ایسا ہے تو وفاقی نظام کو اس کی روح کے مطابق ڈھالنے اور آئین کے وفاقی پہلو کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ تجویز دی جائے کہ سینیٹ کا انتخاب بھی براہ ِ راست طور پر کیا جائے۔ ایسا کرنے پر سینیٹ مزید بااختیار ہوگی اور ہمارا وفاقی نظام بھی اعتبار کا حامل قرار پائے گا۔
پاکستان کی سینٹ کے پہلے سربراہ حبیب اللہ خان تھے ،جو 1973 سے 1977 تک سینٹ کے چیر مین رہے۔ 1985 میں جب تھوڑی بہت عوامی نمائندگی کو جنرل ضیاء الحق نے بجال کیا تو غلام اسحاق خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے چیرمین سینٹ بنے اور دسمبر 1988 میں صدر منتخب ہونے تک ایوان بالا کے سربراہ رہے۔
اب تک سب سے طویل عرصے سینٹ کے سربراہ رہنے کا اعزاز وسیم سجاد کے پاس ہے جو 1988 سے 1999 تک گیارہ برس مسلسل چیرمین رہے ۔ اور اگر اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف ایک بار پھر جمہوریت پر شب خون نہ مارتے تو اپنی دوسری چھ سالہ مدت پوری کرکے 2000 میں سبکدوش ہوتے۔
2003 میں جنرل مشرف کے سپریم کورٹ کے حکم کے تحت انتخابات کراکے پابند جمہوریت بحال کی تو محمد میاں سومرو سینٹ کے سربراہ بنے اور 2009 تک اسی عہدے پر فائز رہے پھر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سینٹ میں بھی اسی جماعت کی اکثریت بنی تو 2009 میں فاروق ایچ نائیک کو سینٹ کا سربراہ منتخب کیا گیا، پھر 2012 میں نیر بخاری اور 2015 میں رضا ربانی کو یہ عہدہ دیا گیا۔
مارچ 2018 میں مسلم لیگ نواز رضا ربانی کو ایک بار پھر سینٹ کا چیرمین بنوانے پر راضی تھی لیکن آصف زرداری نہ مانے اور صادق سنجرانی کو یہ عہدہ ملا۔ اس طرح سینٹ کے پچاس سال پر نظر ڈالی جائے تو جنرل ضیا الحق کی آمریت میں آٹھ سال اور جنرل مشرف کی فوجی حکومت میں چار سال ایوانِ بالا معطل رہا یعنی پچاس میں صرف اڑتیس سال اس نے کام کیا۔
ان اڑتیس برسوں میں پیپلز پارٹی کے پاس یہ عہدہ کُل 13 برس رہا ،جن میں پہلے چار سال حبیب اللہ کے پاس اور پھر تین تین سال فاروق ایچ نائیک، نیر بخاری اور رضاربانی کے پاس، جب کہ مسلم لیگ نواز نے یہ عہدہ چھ چھ سال کے لیے وسیم سجاد کو دیا، جن میں سے وہ گیارہ سال مکمل کرگئے۔ وسیم سجاد کے بعد دوسرا طویل عرصہ محمد میاں سومرو نے چھ سال پورے گزارے۔ اب اگلے سال 2024 میں صادق سنجرانی اپنے چھ سال پورے کر کے ممکنہ طور پر محمد میاں سومرو کے ساتھ مشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر براجمان ہوں گے۔
4 تا 10جولائی 1973ءسینیٹ آف پاکستان کے پہلے انتخابات
4؍جولائی 1973ء سے 10جولائی 1973ء کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد اور مرکز کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں پاکستان کی پہلی سینیٹ کے ارکان کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس انتخاب میں ہر صوبے سے 10,10اسلام آباد سے دو اور فاٹا سے 3 افراد سینیٹ کے رکن بنے۔ سب سے پہلے 4؍جولائی 1973ء کو صوبہ پنجاب میں سینیٹ کے ارکان کا چنائو مکمل ہوا۔
یہاں سے منتخب ہونے والے دس ارکان میں سے نو (میاں احسان الحق، میاں عارف افتخار، رائو عبدالستار، میاں محمد اقبال، چوہدری محمد اسلم،سمیعہ نظام الدین، احمد وحید اختر، قاضی محمد شاہد اور مولوی ظہور الحق) کا تعلق پیپلز پارٹی سے اور ایک رکن فضل الٰہی پراچہ کا تعلق متحدہ جمہوری محاذ سے تھا۔ بعد میں مولوی ظہور الحق کے خلاف عذرداری دائر کی گئی جس کے نتیجے میں یہ نشست متحدہ جمہوری محاذ کے خواجہ محمد صفدر کو مل گئی جب کہ فضل الٰہی پراچہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
6؍جولائی 1973ء کو صوبہ سندھ میں سینیٹ کے دس ارکان کا انتخاب ہوا جن میں سے آٹھ (جے اے رحیم، رفیع رضا، سردار غلام محمد مہر، سید قربانی علی شاہ، سید قمرالزماں شاہ، محمد سلیمان سمیجو، مہران خان بجارانی اور آغاغلام نبی پٹھان) کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے اور دوارکان (مفتی ظفرعلی نعمانی اور سید ذوالفقار علی شاہ جاموٹ) کا تعلق متحدہ جمہوری محاذ سے تھا۔
8؍جولائی 1973ء کو بلوچستان سے دس افراد سینیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، جن میں سے چار (میر نبی بخش زہری، مرزا محمد طاہر، میر عبدالنبی خان اور میر حضور بخش) کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے،چار (زمرد حسین، حاجی سید حسین شاہ، میر عبدالواحد اور میر محمد عزیز خورد) کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے، ایک (محمد زمان خان) کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے اور ایک (محمد ہاشم گلزئی) کا تعلق پختون خواہ نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ 9؍جولائی 1973ء کو فاٹا سے تین آزاد ارکان (گلاب خان، خیال سید میاں اور ملک نصراللہ خان) سینیٹ کے رکن بنے۔
10؍جولائی 1973ء کو صوبہ سرحد سے سینیٹ کے ارکان کا انتخاب مکمل ہوا جن میں سے چھ (شیر محمد، سردار محمد اسلم، نعمت اللہ خان میرافضل خان، حبیب اللہ خان اور ظفر احمد قریشی) کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے، تین (بیرسٹر ظہورالحق، شہزاد گل اور کامران خان) کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے اور ایک (حاجی شبیب خان) کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے تھا۔
اسلام آباد سے منتخب ہونے والے سینیٹ کے دونوں ارکان (عزیز احمد اور نرگس زمان خان) کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا یوں سینیٹ کی 45 نشستوں میں سے 29 نشستوں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے نمائندے کامیاب ہوئے۔ فاٹا کے 3آزاد ارکان کی حمایت بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو حاصل ہوگئی یوں اس پہلی سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ اور حامی ارکان کی مجموعی تعداد 32تک پہنچ گئی۔