• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے IMF پروگرام کی بحالی اشد ضروری ہے تاکہ ڈالر آنے کے وہ دروازے کھل سکیں جو معاہدے کے اب تک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں جس میں مالیاتی اداروں کے علاوہ دوست ممالک کی امداد بھی شامل ہے جس میں سے چین نے 1.5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس رول اوور کردیئے ہیں لیکن پروگرام بحالی سے قبل IMF ان تمام ممالک سے گارنٹی پر بضد ہے۔ اس کے علاوہ IMF نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ IMF سے لی گئی رقم سے چین کے قرضوں کی ادائیگی نہ کی جائے جس کی وجہ سے IMF پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہورہی ہے۔ میں IMF پر کئی کالم لکھ چکا ہوںلیکن آج کے کالم میں معاہدے کے بعد IMF کی سخت شرائط سے ملکی معیشت پر پڑنے والےمنفی اثرات شیئر کرنا چاہوں گا۔IMF کا 3 سالہ پروگرام جو 2019ءمیں سائن کیا گیا تھا، ایک سال کی توسیع کےبعدجون2023ءمیں ختم ہورہاہے جبکہ IMF کے موجودہ پروگرام کی بحالی اپریل تک متوقع ہے لہٰذا ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے ہمیں فوراً IMF کے 24 ویں پروگرام کی طرف جانا ہوگا لیکن افسوس IMF کے 23پروگراموں کے باوجود ہم اہم شعبوں میں اصلاحات نہ لانے کے باعث معیشت میں بہتری نہ لاسکے اور نتیجتاً ملکی معیشت بگڑتی گئی۔ حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ اخراجات سے مالی خسارہ، قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوتا گیا، زراعت اور مینوفیکچرنگ شعبوں کو نظر انداز کرکے سروس سیکٹر کو فروغ دیا گیا جس سے ایکسپورٹ کے ذریعے گروتھ حاصل کرنے کے بجائے امپورٹ پر انحصار کیا گیا جس سے ناقابل برداشت تجارتی خسارے نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح تک پہنچادیا اور روپیہ شدید دبائو کے باعث انٹربینک میں 285روپے اور اوپن مارکیٹ میں 290روپے پر پہنچ گیا، روپے کی قدر میں کمی سے ملکی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں 5200ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے جس کیلئے IMF نے منی بجٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جو ملک میں مہنگائی کا سبب ہیں، ہمIMF کے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے مطالبے کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور پرانے ڈپازٹس کو رول اوور کرکے پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لے رہے ہیں جس سے سود کی ادائیگی ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ ہم نے ایکسپورٹ، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے حقیقی ذرائع سے اپنے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ نہیں کیا، آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 562ارب ڈالر جبکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے صرف4.3ارب ڈالر ہیں۔ ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں SMEs نہ لگنے اور ڈالر کی کمی کی وجہ سے امپورٹ LC پر پابندی کے باعث ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے، IMF کے مطالبے پر ملکی GDPگروتھ کو کم کرکے 2فیصد تک کردیا گیا ہے جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی گزشتہ 50سال میں بڑھ کر 42فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے غریب کے علاوہ متوسط طبقے کا گزارہ بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے موجودہ معاشی بحران میں IMF کےرویے کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ IMF نے ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کو پروگرام کی بحالی سے منسلک کردیا ہے جو پاکستان اور IMF کے مابین اعتماد میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 3 سے 4 سال میں پاکستان کی معیشت خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مستقبل قریب میں ملکی معیشت میں کوئی فوری بہتری کی امید نہیں۔ پیداواری اور مالی لاگت میں اضافے سے ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹس میں کمی، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں بڑے فرق کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی، ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی غیر مطمئن صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری میں منفی رجحان واضح ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث آنے والے وقت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ مشکل ہے جبکہ IMF نے جون 2023 تک 10ارب ڈالر کا ہدف دیا ہے۔ IMF پروگرام نے ملکی معاشی گروتھ کو سست کرنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے ہماری معاشی گروتھ بہت کمزور ہوگئی ہے جبکہ ہمیں نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے تیز معاشی گروتھ کی ضرورت ہے۔ ممتاز معیشت دانوں کا خیال ہے کہ معیشت کی ترقی کیلئے پاکستان کو کم از کم 6سے 7فیصد معاشی گروتھ حاصل کرنا ہوگی جو ان حالات اور موجودہ IMF شرائط میں ممکن نہیں۔پرتعیش اشیا پر 25فیصد سیلز ٹیکس لگاکر ان اشیا کی امپورٹ کو روکنے کے عمل کو میں سراہتا ہوں لیکن ادویات، ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے خام مال، پرزہ جات اور آلات کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کے ملکی معیشت اور ایکسپورٹ پر منفی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک اور FBR کو نہایت احتیاط کیساتھ امپورٹ پر پابندیاں لگانا ہوں گی۔اس کیساتھ ساتھ اشرافیہ کی مراعات میں کمی بھی ایک خوش آئند قدم ہے ، حکومت کوغیر پیداواری اخراجات میں اضافے کو کنٹرول کرنا ہوگا اور ملکی بقا کےعزم کیساتھ اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔ اس موقع پر میں سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ سیاسی اختلافات بھلا کر ملکی بقا کیلئے میثاق معیشت پر متفق ہوں جو ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مختصر، درمیانے اور طویل المیعاد ایک روڈ میپ دے سکے جس پر عمل کرکے ہم پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔

تازہ ترین