• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہار کا موسم اپنے عروج پر ہے۔ ارد گرد پھیلی جبر کی زنجیروں اور محلاتی سازشوں سے بے خبر پھول پوری طاقت سے ماحول میں خوبصورتی اور خوشبو نچھاور کر رہے ہیں۔چیتر کا دلفریب مہینہ شروع ہو چکا ہے جب فطرت کی ہرشے دلکشی کا پیرہن اوڑھتی، زندگی کے حسین اور تعمیری رنگ اجاگر کرتی ہے۔فضا میں پھیلا یہ سارا حُسن اور بانکپن زمین کی وصل رُت کی انگڑائی ہے۔جب وہ سردی کی منجمد لہر سے نکلتی ہےاورنیلے آسمان کو دیکھ کر خوشی کا گیت الاپتی ہے تو اس کے سارے رنگ سطح پر نمودار ہونے لگتے ہیں۔ ظاہری دنیا کو رنگین بنانے والے یہ رنگ احساسات میں چٹکی بھر کر کھلکھلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مٹی کے بُت کا زمین سے گہرا بندھن ہوتا ہے۔دونوں کے درمیان باطنی رابطہ استوار رہنا ضروری ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی محبت کی ضرورت رہتی ہے۔جب مصنوعی بندشیں ان کے رابطے مسدود کر دیتی ہیں تو طوفان برپا ہوتے ہیں۔ انسان چاہے بھی تو دھرتی سے دور نہیں جا سکتا۔ اس لئے زمین کے اندر ہونے والی ساری کارروائی سے باطنی طور پر باخبر رہتا ہے۔ بہار موسم میں زمین کی الڑ انگڑائی انسان کے جذبات و احساسات کو مہکا دیتی ہے۔وہ مختلف حوالوں سے خوشی کا اظہار کرتا ہے۔کلچر اور فطرت کا گہرا تعلق ہے۔کلچر فطرت کے رنگوں سے ہم آہنگی کی عملی جستجو کا نام۔

فطرت محبت،رواداری اور مل جل کر رہنے کے پیغام سے لبریز ہے۔کلچر اس رنگ کو اوڑھ کر فطرت کے حسن اور خیر پھیلانے کے وسیع ترمقاصد کی معاونت کرتا ہے۔جس طرح ہوا چلے تو پھول لہراتا ہے اسی طرح ڈھول بجے تو روح جھومنے لگتی ہے اور جسم فضا کے ساتھ رقص میں شامل ہوجاتا ہے۔ موسیقی کے سُر روحانی اسرار ہیں۔جنہیں صوفیا نے سمجھا اور انسان کی شخصیت کی تعمیر وترقی کیلئے وسیلہ کیا۔ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے بہار رُت کا صیاد سے کبھی ڈھکا چھپا اور کبھی علانیہ تصادم ہوتا رہا ہے۔اسلئے کہ کچھ قوتیں دوسروں کو خوش نہیں دیکھ سکتیں۔انھیں تعمیر اور حسن سے بیر ہوتا ہے۔ نفرت کے سوداگر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے ذریعے دوسروں کو ناشاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیسی مہینے چیتر کی پہلی تاریخ یعنی 14مارچ کو جس دن پنجاب کا کلچر ڈے تھا۔لاہور میں عجیب صورتحال رہی۔پاکستان کے شہرِ بے مثال میں رستے مسدود رہے۔ایک صوبے کی پولیس کو دوسرے صوبے کی پولیس اور ایک صوبے کے مسلح دستوں کا سامنا دل دُکھانے والا عمل لگا۔اب پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والی عالمی متنازعہ شخصیات کے حکومت وقت اور دفاعی اداروں کے خلاف بیانات اہل فکر کو فکرمند کر رہے ہیں مگر کچھ بھی واضح نہیں ہو پارہا۔کون کس کے ا سکرپٹ پر چل رہا ہے یا شاید سب کو ہی ایک مصنف نے مختلف کردار عنایت کر رکھے ہیں۔ہم سب کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ سڑکیں تھیٹر کا روپ دھارتی جارہی ہیں،قانون اور عدل کا تماشا پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ حکومت کی عجیب بے بس شکل سب کے حوصلے کمزور کر رہی ہے۔ شہباز شریف نے وزیراعلیٰ کے طور پر جو شناخت بنائی تھی وہ وزیراعظم بننے کے بعد معدوم ہوتی جارہی ہے۔شہباز شریف صاحب کو چاہئے وہ دباؤ اور لمبے چوڑے مشاورتی بورڈ سے نکل کر اپنی شخصیت میں چھپے خادم پنجاب والے جذبے کو خادم پاکستان میں ڈھال کر زیادہ توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے نظر آئیں۔بے رحم مخالفتوں کا سامنا کرکے سوخرو ہونےکیلئے بہار سے سبق حاصل کریں۔ہمارا ایمان ہے کہ یہ صبحِ کاذب ہے جو اس وقت ہمارےملک پر طاری ہے اس کو ڈھلنا ہے۔خوشحالی اور امن کے سورج نے طلوع ہوکر گہری تاریکی کو رخصت کرنا ہے مگر اس کے بعد اّجالا ہے، اصلاح ہے،قانون کی عملداری ہے،عدل کا معیاری نظام ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سیاستدانوں کا جمہوری نظام پر ایمان انہیں کسی وقتی سمجھوتے پر نہیں اکسائے گا۔ مولانا روم کے مطابق ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ ہمیں بھی اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے ، اپنی شاندار قدروں اور کلچر کے دلکش رنگوں کوساتھ لیکر اپنی شخصیت اور ملک کو خوبصورت بنانا ہے۔ مصنوعی روئیے پورے منظر کو اجنبی بنادیتے ہیں۔ بہار رُت میں بہار کی روش دیکھیں۔بہار اور فطرت درویشانہ مزاج کی حامل ہے۔ جو اس کے وجود کو ناپسند کرتے ہیں،انھیں بھی اپنی خوشبو اور نعمتوں سے محروم نہیں کرتی۔ آئیے اس مختصر سی زندگی میں بہار کا مزاج اپنا کر سماج میں خوشبواور خوشی بکھیریں۔

تازہ ترین