’’کہاں چھوڑوں آپ لوگوں کو؟‘‘ستیش نے پوچھا۔ ’’چاندنی چوک بازار اُتار دو۔‘‘ ہم نے کہا، تو ستیش نے ٹیکسی چاندنی چوک کے قریب جا کر روک دی۔ کرائے کے علاوہ ہم نے دو سو روپے اضافی بطور بخشیش اُس کی جیب میں ڈالے، تو اس نے یوں تشکّر سے ہماری طرف دیکھا، جیسے ہم نے کُل کائنات اس کی جیب میں ڈال دی ہو۔
چاندنی چوک بازار کا رستہ آہنی گیٹ لگا کر محدود کر دیا گیا ہے تاکہ بڑی گاڑیاں داخل نہ ہو سکیں۔ بائیں ہاتھ کونے میں ایک لال رنگ کی عمارت تھی، یہ ’’جین مندر‘‘ ہے، جسے چاندنی چوک کا لال مندر بھی کہتے ہیں۔ ابوالمظفّر شہاب الدین محمّد شاہ جہان نے جب شاہ جہان آباد کی بساط بچھائی، تو اُس کی لاڈلی بیٹی، جہاں آرا نے اس شہر کے لیے ایک ایسا بازار تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا کہ رُوئے زمین پہ ایسا بازار کہیں نہ ہو۔ یوں، قلعۂ معلیٰ کے عین سامنے1650 ء میں چاندنی چوک بازار کی بنیاد رکھی گئی، لیکن اُس کا نقشہ، سجاوٹ، بناوٹ سب جہاں آرا بیگم کی تجاویز پر مبنی، اُن کے ذوق کے عین مطابق رکھے گئے۔
چاندنی چوک بازار حُسنِ نظر، حُسنِ انتظام اور حُسنِ آرائش کا کرشمہ تھا۔ شاہ جہاں نے اُس بازار کی رونق کے لیے اگروال جین تاجروں کو دریبہ میں لاکر آباد کیا، پھر اُنہی تاجروں نے یہاں لال مندر بھی تعمیر کیا، جو بھارت کے قدیم ترین جین مندروں میں سے ایک ہے۔ چاندنی چوک کے آہنی دروازے کے قریب ہی مندر کا داخلی دروازہ ہے۔ ہم نے سوچا، آج جین مندر بھی دیکھ ہی لیتے ہیں، تو اُسی طرف چل دیئے۔ مندر کا مرکزی حصّہ بہت خُوب صُورت ہے۔ دیواروں، محرابوں اور مخروطی گنبد میں نقّاشی کا بہت عُمدہ کام کیا گیا ہے۔ ایک دیوار میں لال قلعے کے دیوانِ عام کے نشیمنِ ظلِ الٰہی سے ملتی جُلتی ایک شہہ نشین ہے، جس میں ایک بڑی اور دو چھوٹی مُورتیاں سجی ہیں۔ لال مندر دیکھنے کےبعد ہم لوگ چاندنی چوک کے آہنی دروازے سے بازار میں داخل ہوئے۔
قلعۂ معلیٰ کا لاہوری دروازہ بازار کے بالکل سامنے اس خُوب صورت بازار کو رشک بَھری نگاہوں سے تکتا ہے۔ لاہوری دروازے پہ پیلے رنگ کے برقی قُمقموں نے رنگ و نُور کی بارش سی کر رکھی ہے۔ ہمیں لگا، جیسے وقت صدیوں پیچھے چلا گیا ہے۔ ایران و توران اور بلخ و بُخارا کے قافلے آکے اُس بازار میں رُک چُکے ہیں۔ اونٹوں، زرّیں محمل اور کجاووں میں حور شمائل، زہرہ جبیں شہزادیاں، دُور دراز کے دیسوں سے اُس بازار کا نظارہ کرنے آئی ہیں، اونٹوں کے گلے کی گھنٹیاں سرمدی گیت الاپ رہی ہیں، تو عربی گھوڑوں پر اطلس و کم خواب کی سنہری جھولیں ہیں۔
گھوڑوں کی ایالیں چاندی کے زیوروں سے مرصّع ہیں، ان راکبوں پہ سوار جرّی شہ سوار بازار سے گزر رہے ہیں، خلقت اُنہیں حیرت سے تک رہی ہے اور وہ فخر و ناز سے گردن اکڑائے بازار کا نظارہ کر رہے ہیں۔ نوبت اور نقّاروں کی آوازیں اتنی بلند ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ مغل اقتدار کا سورج اپنے نصف النہار پہ پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے۔ کہیں خوش گلو، خوش آواز گویّے تان سین اور تان رس خان کی سی آواز میں الوہی گیت الاپ رہے ہیں، تو کہیں میر باقر علی کے سے داستان گو تکیہ جمائے، ڈیرہ لگائے طولانی داستانیں چھیڑے ہوئے ہیں اور لوگ ہیں کہ بُت بنے، دَم بخود داستانیں سُن رہے ہیں۔
بلخ اور بخارے، ثمرقند اور اصفہان، کابل اور قندھار کے تاجر اپنا قیمتی مال لیے چاندنی بازار میں گھوم رہے ہیں اور ہندوستان، سونے کی چڑیا کی اس راج دھانی، شاہ جہان آباد کے دل، چاندنی چوک بازار میں چند لمحوں میں اپنا مال بیچ باچ کر اب قہوہ خانوں میں بیٹھے قہوہ نوشِ جاں کررہے ہیں، ساتھ منقّش حُقّوں کی منہال کی نَے منہ میں دبائے ہلکے ہلکے کَش لگا رہےہیں اور خُوش بُو دار تمباکو کا دھواں آہستہ آہستہ قہوہ خانے کے رومانی ماحول میں پھیل رہاہے۔
دوسری طرف چاندنی چوک کی نہر کا مجلّا اور مصفّا پانی بازار کے بیچوں بیچ رواں ہے۔ جھاڑ اور کنول، چراغ اور دیے نہر کنارے جھلملا رہے ہیں۔ جیسے خواب ٹُوٹتا ہے، ویسے ہی ہم بھی بیدار ہوئے اور ماضی سے حال میں آپہنچے۔ یہ شاہ جہاں کے دَور کا نہیں، آج کا دہلی ہے، جس پہ اروند کیجریوال کی حُکم رانی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ بازار بہت گندا اور تعفّن زدہ تھا۔ ولیم ڈیلرمپل نے اپنی کتاب ’’جنوں کے شہر‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’شاہ جہان آباد کا چاندنی چوک بازار، جو کبھی رشکِ جہاں تھا، اب ایک کچرا کنڈی بن چُکا ہے۔ چاندنی چوک کی نہر خشک ہو کر کُوڑے کرکٹ سے بَھر چُکی ہے۔‘‘ ایک سال قبل اروند کیجریوال نے اس بازار کی تعمیرِنو اور مرمّت کروائی۔ آہنی گیٹ لگا کر ٹریفک کا داخلہ بند کردیا۔ ہاں، بازار میں سائیکل رکشے آسکتے ہیں۔
جہاں کسی زمانے میں نہر تھی، وہاں دو طرف سُرخ رنگ کی بُرجیاں بنا کر نہر کی جگہ گرین بیلٹ بنا دی گئی ہے۔ دائیں اور بائیں دُکانوں کے سامنے بھی بُرجیاں لگا کر فُٹ پاتھ بنا دیئے گئے ہیں۔ اب یہاں صفائی کا انتظام کافی عُمدہ نظر آتا ہے۔ دہلی گھومتے پِھرتے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے، جیسے لاہور میں آوارہ گردی کر رہے ہوں۔ چاندنی چوک بازار لال قلعے کے سامنے سے شروع ہو کے فتح پوری مسجد پہ ختم ہوتا ہے۔
رات کی سیاہ زُلفیں چاندنی چوک بازار کے دَر و دیوار پہ بکھر چُکی تھیں۔ سڑک کنارے دونوں طرف دل کش قسم کے لیمپ پوسٹ لگے تھے۔ اُن کھمبوں سےلٹکتے برقی لیمپس کی نُقرئی روشنیاں چاندنی چوک کی اُس شب کی مانگ میں ستاروں کی طرح جگمگا رہی تھیں۔ رات بھی غالباً پورے چاند کی تھی، تو چاندنی بھی اُس شبِ ماہ میں چاندنی چوک کے در و دیوار پہ پھیلتی تاریکی کو نیم روشن کر رہی تھی۔ جین مندر سے تھوڑا آگے ایک چرچ ’’سینٹرل بیپٹسٹ چرچ‘‘ بھی نظر آیا، جس کی عمارت بھی چمک رہی تھی۔ لوگوں کی ایک بھیڑ سیلابی ریلے کی مانند اردگرد سے بے نیاز اپنے آپ میں گُم رواں دواں تھی۔
بےشمار دُکانیں، کھانے پینے کے اسٹالز، غرض دنیا جہاں کی ہر شئے منہگے سے منہگے اور سستے سے سستے داموں دست یاب تھی۔ چاندنی چوک بازار میں گھومتے پِھرتے کبھی کبھار محسوس ہوتاہے، جیسے لاہور کے انارکلی بازار میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ فرق اتنا ہے کہ چاندنی چوک بازار کافی وسیع، کُشادہ اور زیادہ طویل ہے۔ بازار کی لمبائی قریباً دو کلومیٹر ہے۔ رات کے اس پہر یہاں عید کے میلے کا سماں لگ رہا تھا، جسے دیکھ کر ہمیں سیّد ضمیر جعفری (مرحوم) کی ایک نظم ’’عید کا میلہ‘‘ یاد آگئی۔؎ یارو! یہ عید کا میلہ ہے…لو، اِک جی دار بساطی نے ہر چیز لگادی چار آنے…کنگھی جاپانی چار آنے، شیشہ بغدادی چار آنے…پتلی سی چھتری کے نیچے مومی شہزادی چار آنے…ہر گُڑیا پُڑیا، باجا کھاجا، ریشم کھادی چار آنے۔ یہاں اس نظم کے مصداق کئی دُکانوں میں نہایت بڑھیا قسم کا مال نہایت ارزاں نرخوں میں دست یاب تھا۔
ہم ایک دُکان پہ رُکے، جہاں چمڑے کی کوئی بھی بیلٹ ڈیڑھ سو روپے میں فروخت ہو رہی تھی۔ ایک دُکان پر عُمدہ قسم کی سوتی ٹی شرٹس، دو دوسو روپے میں دست یاب تھیں۔ ہم نے تین چار پتلونیں، دس شرٹس سمیت خرید لیں۔ اسٹیشنری کی دُکان سے پینسلز کے دو، تین پیکٹس بھی گرہ میں باندھ لیے۔ ستیش نے بتایا تھا کہ چاندنی چوک کے بیچوں بیچ ایک کھوکھا ہے، وہاں مکھن برگر اور چائے بہت عُمدہ ملتی ہے۔ بہت تلاش بسیار کے بعد چائے کا وہ کھوکھا ملا، مکھن برگر کا پوچھا، تو ایک منحنی سے سانولے رنگ کے بھیّا جی، میلی سی شرٹ کے نیچے، اس سے بھی میلی جینز پہنے پسینہ پونچھتے برآمد ہوئےاور آرڈر لے کر چلے گئے۔
مکھن برگر دیکھ کر تو ہم دنگ رہ گئے، پتا چلا کہ چائے والے بَن کو کاٹ کر مکھن اور چیز کے امتزاج سے ملی جُلی کوئی شئے اندر لگا دیتے ہیں اور لوگ اُسے مکھن برگر کہتے ہیں۔ بھوک کافی چمک اُٹھی تھی، تو کھوکھے والے کی حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے مکھن برگر کا لقمہ کھایا، تو دل سے آواز آئی ’’یہ برگر کوئی نرالی، ذائقے دارشئے تو نہیں۔‘‘ہمیں لگا ستیش نے فقط زیبِ داستاں کے لیے اس مکھن برگر کی تعریف کی تھی۔
البتہ، چائے کڑک تھی، ذائقہ عُمدہ تھا، نیز ادرک کی آمیزش نے اُس کا لطف دو آتشہ کردیا تھا۔ ہم نے چائے کی ایک چسکی لی اور آنکھیں موند کر سوچنے لگے ’’یہیں کہیں انہی گلیوں میں میر تقی مؔیر کو گردشِ ایام کھینچ لائی ہوگی۔ اِدھر ہی کسی جگہ وہ تکیہ کرتےاور محفل جماتے ہوں گے۔ شاہ جہان آباد کے انہی گلی کُوچوں میں گھومتے پھرتے میر نے وہ شعر کہا ہوگا ؎ دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے…جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی۔
چاندنی چوک بازار کے بیچوں بیچ ٹاؤن ہال کا گھنٹہ گھر نظر آیا، جس کے سامنے ایک چھوٹے سے پارک میں سوامی شردھانند کا سنگی مجسّمہ نصب ہے۔ یہ آریہ سماج تحریک کے رہنما تھے، انہوں نے پچھلی صدی کے شروع میں ’’شُدھی تحریک‘‘ کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد اُن لوگوں کو واپس ہندو دھرم کی طرف مائل کرنا تھا، جنہوں نے ہندومَت چھوڑ کر عیسائیت اور اسلام قبول کر لیا تھا۔ دن کے وقت ایک دن فیض مصطفیٰ اور ہم رکشے پہ ٹاؤن ہال کے پاس سے گزرے، تو دیکھا بہت سے جنگلی کبوتر اس مجسّمے پہ اُتر رہے اور اُڑانیں بَھر رہے تھے۔ اُسی ٹاؤن ہال کی لائبریری میں کبھی ڈپٹی نذیر احمد اور شمس العلماء مولوی ذکا اللہ شام کو محفل جماتے تھے۔
فرحت اللّٰہ بیگ نے لکھا ہے، ’’ڈپٹی صاحب چار بجے گھر سے نکلتے، مختلف دُکانوں پر بیٹھتے، حساب چیک کرتے (جن کے ساتھ کاروبار میں شراکت تھی) اور پورے چھے بجے ٹاؤن ہال لائبریری میں داخل ہو جاتے۔ اس سلسلے میں وقت کی اتنی پابندی کرتے تھے کہ لوگ اُنہیں دیکھ کر اپنی گھڑی کا وقت درست کرلیتے۔‘‘ ڈپٹی نذیر احمد ہی نے معاشرتی اُردو ناول نگاری کی ابتدا کی اور ان کے ناولز جیسے مراۃ العروس، توبتہ النصوح، ابن الوقت، فسانۂ مبتلا، بنات النعش آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ اردو نثر کی جو چاشنی اور چٹخارے اُن کے ناولز میں ملتے ہیں، وہ اور کسی کتاب کے دامن میں نہیں۔ ٹاؤن ہال کی اس پیلی عمارت کو ہم نے ایک روز فیض مصطفیٰ کی ہم راہی میں رکشے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا تھا، جس کی نسبت اُردو کے ایک بہت بڑے نثر نگار کے ساتھ ہے۔
اب ہم لوگوں کو تلاش تھی ہلدی رام کی مٹھائی کی دُکان کی۔ کہتے ہیں، ’’جس نے چاندنی چوک نہیں دیکھا، اُس نے دہلی نہیں دیکھا اور جس نے ہلدی رام کی دُکان نہیں دیکھی، اس نےخاک چاندنی چوک دیکھا۔‘‘توڈھونڈتے ڈھونڈتے جا پہنچے ہلدی رام کی دُکان پر۔ تقسیمِ ہند سے کچھ ہی سال پہلے گنگا بشن اگروال ہلدی رام نے1941 ء میں بیکانیر، راجستھان میں اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مٹھائی کی دُکان بنائی تھی، جو اب بھارت کی پہچان بن چُکی ہےاور جس کی شاخیں بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔
ہلدی رام کی مٹھائی کی دُکان چاندنی چوک کے بیچوں بیچ ہے۔ لکشمی دیوی اُن پہ بالکل ویسے ہی مہربان ہے، جیسے ہمارے اہلِ اقتدار پہ۔ اُن کی دکان میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، مٹھائی لینے اور پیسے دینے کے لیے طویل قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ اُن کی سون پاپڑی دنیا بَھر میں مشہور ہے، تو ہم نے سوچا، یہی لےلیتے ہیں۔ ابھی کیش کاؤنٹر کے سامنے قطارمیں کھڑےہی تھے کہ کچن سےتازہ سموسوں کی خوُش بُو آنے لگی اور ہم نے سون پاپڑ کے ساتھ سموسے بھی خرید لیے اور وہیں دُکان میں کھڑے ہو کر کھانے میں مصروف ہوگئے۔ رات کا وقت اور سموسوں کی لذّت کا تو پوچھیں ہی نہیں، پھر چٹنیوں نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا۔ زبان آج تک وہ چٹخارے یاد کرتی ہے۔
ویسے ایک بات ہے، بھارت کے لوگ ملٹی نیشنل کمپنیز کے بجائے قومی کمپنیز کی اشیاء خریدتے ہیں۔ جیسے انٹرنیشنل برانڈ کے بجائے ہلدی رام کی پراڈکٹس خریدی جاتی ہیں، اِسی طرح منرل واٹر بھی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نہیں، بِسلیری کا (ایک مقامی کمپنی) پیا اور پسند کیاجاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں بھی مقامی مصنوعات خریدنی اور انہیں فروغ دینا چاہیےتاکہ زرِ مبادلہ امپورٹ بلز کی ادائی میں ضایع ہونے کے بجائے، مُلک ہی میں رہے اور وطنِ عزیز ترقّی کی منازل تیزی سے طے کر سکے۔
نیز، سرمایہ داروں اور تاجروں کا بھی فرض ہے کہ ایسی مصنوعات تیار کریں، جن کا معیار بلند اور قیمت مناسب ہو۔ جب کہ ہمارے یہاں معیار پہ توجّہ نہیں دی جاتی اور قیمت بھی زیادہ رکھی جاتی ہے، یعنی دونوں ہاتھوں سے صارف کو لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لُوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلتاہےکہ بالآخر صارف کا اعتماد مقامی مصنوعات سے اُٹھ جاتا ہے۔ (جاری ہے)