ماہِ صیام کو نیکیوں کا موسمِ بہار بھی کہاجاتا ہےجس میں دامن کو خیر اور فلاح سے بھرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج مسلم معاشرے میں رمضان المبارک کی قدروقیمت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ پہلے اس مہینے میں لوگوں میں ایثار، ہم دردی ،تقوی اورتزکیہ نفس کا جذبہ نمایاں ہوتا تھا اور لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ لیکن اب بہت سے مسلمان ’’مال‘‘ کمانے اور بنانے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے افراد اسے طرح طرح کے پکوان کھانے کا مہینہ بنالیتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی یہ ماہِ مقدّس شروع بھی نہیں ہواتھا کہ گزشتہ برسوں کی طرح ناجائز منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں، چور بازاروں اور غیر معیاری اشیا فروخت کرنے والوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔
بے بس عوام
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ ہوچکا ہے۔ منہگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ریکارڈ پر ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ غریب عوام کے لیے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز گراں فروشی کے خلاف بے بس نظر آتی ہیں۔ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اگر کہیں ملزموں کو پکڑ بھی لیا جاتا ہے تو معمولی جرمانہ کرکے پھر سے عوام کو لوٹنے کے لیے چھوڑ دیاجاتا ہے۔
ہر برس حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے رمضان پیکیج کااعلان تو کر دیاجاتا ہے، مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے بلکہ سرکاری عمّال ہی خردبرد کرلیتے ہیں۔ ان پیکیجز کاصرف20سے30فی صد ہی عوم تک پہنچ پاتاہے۔ سستے بازاروں میں اشیائےضروریہ ناقص ، غیر معیاری اور زاید المیعاد ہونے کی شکایات عام ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کاکوئی واضح نظام موجود نہیں۔
یوں تو یہاں منہگائی کا زور پورا سال ہی رہتا ہے، لیکن رمضان سے کچھ روز پہلے اوراس ماہ کے دوران اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مقدّس میں ہر مسلمان گھرانے کےاخراجات عام دنوں سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر سال ماہِ رمضان میں اشیائے خوردونوش کو سستا کرنے اور قیمتوں میں استحکام لانےکے لیے حکومت عوام سے جھوٹے وعدے کرتی ہے، خصوصی رمضان پیکچز کا اعلان کیا جاتا ہے اور پرائس کنٹرول کمیٹیز کو ہائی الرٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان سارے اقدامات کے باوجود ماہ رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔
برسوں سے جاری روایت کے مطابق اس بار بھی رمضان المبارک کے دوران کھانے پینے کی اشیاءکے نرخ کنٹرول میں رکھنے کےلیے روایتی سرکاری فیصلوں اور اقدامات کا اعلان کیا گیا، مگر ان سے پہلے ہی ، بیسن، چنے ، گھی، تیل، آٹے، دالوں ، دودھ، دہی ،پھلوں،کھجور اور دیگر اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ عوام کے مطابق تاجروں نے رمضان سمیت تمام تہواروں کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ تاہم اشیائے ضروریہ کے تھوک فروش سارا الزام حکومت کے سر تھوپتے ہیں۔
چند برسوں، بالخصوص ایک برس میں منہگائی میں کئی سو فی صد کے لگ بھگ اضافےنے عوام کی قوّتِ خرید اور برداشت ختم کردی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہرسال بلند بانگ دعوے کیے جاتے اور اخباری بیانات سامنے آتے ہیں، لیکن منہگائی قابو میں آنے کا نام نہیں لیتی۔
ریاست کی طاقت سے آگاہ افراد جانتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی یا منہگائی پر قابو پاناکسی حکومت کے لیے زیادہ مشکل کام نہیں ہے، اس کےلیے محض عزم اور ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر حکومتوں کی جانب سے ہرسال عارضی طریقہ کار ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز میں کچھ دن سختی دکھانے کے بعد سرکاری کارروائیاں سست ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً ماہ مبارک کے دوران پھلوں کی طلب بڑھتے ہی منہ مانگے دام طلب کیے جانے لگتے ہیں۔ حکومت تقریبا ًہر سال عوام کو ریلیف دینےکی غرض سے رمضان پیکیج کااعلان کرتی ہے، لیکن شکر، بیسن ، گھی، آٹا،تیل اور مختلف اقسام کی دالیں یوٹیلیٹی اسٹورز سے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
سبزی، پھل ،گوشت، اجناس،دودھ،دہی فروش، درزی، کریانہ اسٹور اور بیکری کے مالکان سمیت کاروباری طبقے کا بڑا حصّہ رمضان المبارک میں صلہ رحمی، محبت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ اور ناجائز منافع خوری میں مصروف ہے اورمال کمانے کے ’’سیزن‘‘ سے پورا پورا فایدہ اٹھا رہا ہے۔
دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ بے بس اور خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر برسر اقتدار طبقہ رمضان المبارک میں عوام الناس کو واقعتاً کوئی ریلیف پہنچانا چاہتا ہے تو اسے بعض بہت سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ حکومت کو مٹھی بھر مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے سرکاری نرخوں پر اشیا کی فروخت یقینی بنانے اور گراں فروشی کی روک تھام کے لیے علمائےکرام، معززین ، صحافیوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں اور پولیس اورسول انتظامیہ پر مشتمل ایسی خصوصی کمیٹیز تشکیل دینی چاہییں جو رمضان المبارک کے دوران اور اس کے بعد بھی منہگائی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔
دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا طرزِ عمل
ساری دنیا میں حکومتیں اورادارےمذہبی ایّام اور تہواروں کے موقعے پر اشیائے صرف کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں کے مذہبی تہوار کرسمس کو دیکھ لیں، مغربی ممالک میں ان دنوں میں اشیائےضرورت سستی کر دی جاتی ہیں تا کہ غریب افرادبھی کرسمس کی خوشیاں مناسکیں۔ افسوس کہ ہم پاکستانی خودکو مسلمان کہلواتے ہیں، لیکن اپنے مذہب کے لازوال، سچّے اقوال اور راہ نما اصولوں کی تقلید نہیں کرتے۔ رمضان میں منہگائی کرنے میں ذخیرہ اندوز، ٹھیلے والے، دکان دار اورگرانی روکنے کے ذمے دار سرکاری افسران، سب ہی شریک ہوتے ہیں اور ان پر چیک رکھنے والے خواب غفلت میں سوئے ہوئے عمّال اس نہایت سنجیدہ مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
’’کرسمس‘‘، ’’ایسٹر‘‘، ’’تھینکس گوِنگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں سارے امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی پچاس فی صد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ایسٹر، اپریل میں منایا جاتا ہے، باقی تینوں تہوار ایک ماہ میں منالیے جاتے ہیں۔ ہر سال نومبرکی آخری جمعرات تھینکس گوِنگ ڈے، جمعہ، بلیک فرائیڈے اور 25 دسمبر کرسمس کے دن ہیں۔
لوگ ان دنوں اتنی خریداری کرتے ہیں کہ باقی سال اس کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا کے اکثر بڑے بڑے اسٹورز عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاں نرخوں پر دست یاب ہوتی ہے۔ مالی طور پر کم زور افراد قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس موقعے سے بھر پور فایدہ اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں وہاں لوگوں پر خریداری کا بخار چڑھا ہوتا ہے۔ امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتو قیمتی سامان مفت بانٹ دیتے ہیں۔ وہ اسے اپنے گھرکے دروازے پر ڈھیر کی صورت میں رکھ دیتے ہیں۔ ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ یوں غریبوں کوبہت سی اشیا مفت میں مل جاتی ہیں جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام آجاتا ہے۔
وہاں اس موقعے پر کسی قسم کی ذخیرہ اندوزی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خورونوش بازارسے غائب نہیں کی جاتیں ۔اشیا کو منہگا کر کے فروخت کرنے کے لیے کوئی حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔ الٹا ان دنوں نایاب اشیا بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دست یاب کر دی جاتی ہیں۔
ہندو اور بودھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے ممالک میں بھی ہم اسی طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں ۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک میں بھی عوام تہواروں پر سستی اشیاسے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کمیونسٹ ملکوں میں، جہاں ریاست مذہب سے لاتعلق ہے، عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیےسرکاری چھتریاں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میں اور دونوں عیدوں کے موقعے پر ہر ضرورتِ زندگی نہایت مناسب نرخوں پر مہیا کر دی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان کا مہینہ عوام کے لیے برکتوں کے ساتھ بے شمار زحمتیں بھی لے کر آتا ہے۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفّاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔
یوں ملک بھر میں سحراور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنامنہگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چُور چُور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار کے موقعے پر اپنے سامنے موجوداشیائے خورونوش کی گرانی پر کڑھتے رہتے ہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتاہے۔ یوں اس بیمار معاشرے میں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ کروڑوں اربوں روپے سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ حکومتیں سرد مہری سے یہ سب ہوتا دیکھتی رہتی ہیں، لیکن غریب، غربا کو کوئی ڈھال فراہم نہیں کرتیں۔
رمضان کے بعد عید بھی ’’سیزن‘‘
رمضان کا سارا مہینہ ہم مہنگائی میں غرق رہتے ہیں پھر عید نزدیک آتی ہے تو یہی سرمایہ دار اس کا حسن بھی گہنا دیتے ہیں۔ ملبوسات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک گرداب ہے جس میں پاکستان کئی دہائیوں سے چکر کھا رہا ہے۔ اگر ہمارے راہ نماوں میں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو انہیں سب سے اہم پالیسی یہ بنانا ہو گی کہ خوراک کم سے کم نرخوں پر ہر آدمی کو مہیا ہوتاکہ عام آدمی رمضان کے مہینے میں حکومت اور سرمایہ داروں کو بددعائیں نہ دے۔وہ پوری یک سوئی سے عبادات کرسکے اور یہ ماہِ مبارک اس کے لیے محض حسرت و یاس کا مہینہ بن کر نہ گزرے۔
ہر طرف سے خبریں آرہی ہیں کہ رمضان میں کثرت سے استعمال کی جانے والی بیش تر اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ہے جن میں چنے کی دال، بیسن، کھجور، کالے اور سفید چنے سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب موسمی پھل ، پپیتا، امرود، خربوزہ اور کیلا من مانی قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں۔
مرغی فروشوں نے سرکاری فہرستیں آویزاں کرنے کے بجائے اپنے نرخ نامے آویزاں کررکھے ہیں جن میں صارفین کو صاف گوشت، کلیجی، پوٹے کے ساتھ اور بغیر گوشت، ران بازو، ڈرم اسٹک اور گولڈن پیس کے نام پر من مانی قیمتیں وصولی کی جارہی ہیں۔ مرغی فروشوں نے صارفین اور شہری انتظامیہ کو دھوکا دینے کے لیے تختیوں پر ران کے نرخ آویزاں کررکھے ہیں، اصل نرخ کہیں زیادہ ہیں۔
شہر میں گائے کے ایک کلو گرام گوشت کےنرخ 750تا900روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ مختلف علاقوں میں بکرے کے گوشت کے نرخ 1700 تا 1800روپے فی کلو گرام وصول کیے جارہے ہیں۔ دودھ210تا 220روپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔سبزی فروش بھی منہگائی کی گنگا میں نہا رہے ہیں۔ بیش تر سبزیاں ایک سو بیس روپے فی کلو گرام سے کم میں دست یاب نہیں۔ کھجور بھی جیسا گاہک ویسی قیمت کے اصول کے تحت من مانی قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہے۔
کم سے کم درجے کی کھجور آج بازار میں 300 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت کی جا رہی ہے۔ ڈبہ بند کھجور کا400گرام کا پیک 250 روپے سے کم میں دست یاب نہیں ہے۔ کچھ بہتر معیار کی کھجور 400 روپے فی کلوگرام سے کم میں دست یاب نہیں۔ مٹھائی اور نمکو کی دکانوں پر پکوڑے، سموسے، رول، پیٹیز اور نمکو کے نرخ میں رمضان سے قبل ہی اضافہ کردیا گیا تھا۔
سترہ مارچ کو ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق رمضان سے پہلے منہگائی مزید بڑھ گئی تھی۔ ملک میں 28اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور منہگائی مزید 0.96فی صد بڑھ گئی تھی۔ یوں منہگائی کی مجموعی شرح 47.97فی صدتک پہنچ گئی۔ ٹماٹر 8 روپے 92 پیسے، 190گرام چائے کا پیکٹ 39 روپے 67 پیسے، آلو 2 روپے 26 پیسے فی کلو اور کیلے ساڑھے 7روپے فی درجن منہگے ہوئے۔
ادارہ شماریات کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے میں چینی 2 روپے 78 پیسے فی کلو، بیس کلوگرام والا آٹے کا تھیلا 42 روپے 55 پیسے، ڈھائی کلو گھی کا ڈبہ 18روپے 3 پیسے فی کلو منہگا ہوگیا۔ نمک، دودھ، بیف، دہی اور چاول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا اور11اشیائے ضروریہ سستی ہوئیں۔
اس ہفتے میں پیاز 25 روپے، چکن 25 روپے 62 پیسے فی کلو سستا ہوا۔ لہسن 23 روپے42 پیسے، دال مسور 6 روپے 43 پیسے فی کلو، انڈے 5 روپے 53 پیسے فی درجن، دال چنا 3 روپے 22 پیسے فی کلو سستی ہوئی۔ اس کے علاوہ ماش اورمونگ کی دالوں کے نرخ بھی کم ہوئے اور 12اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
پاکستان کے برعکس متحدہ عرب امارات میں رمضان کی آمد سے دو ہفتے قبل ہی سپر مارکیٹس نے ضروری اشیاء پر 75 فی صدتک رعایت دینےکا اعلان کردیا تھا۔ متحدہ عرب امارات کی تمام ریاستوں میں مختلف اقسام کی ڈیلز اور بڑے پیمانے پر رعایتیں پیش کی گئی ہیں۔ کھانے پینےکی اشیاء سمیت روز مرہ استعمال کی دیگر مصنوعات پر بچت اسکیمز سے آن لائن بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
خلیجی اخبار کے مطابق خریدار رمضان کے دوران دس ہزار سے زاید اشیاء پر75 فی صد تک کی چھوٹ سے فایدہ اٹھاسکتے ہیں۔ دوسری جانب وہاں مختلف کمپنیز نے رمضان کے مہینے میں اشیاء کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنےکے لیے اسٹاک کی دست یابی 15فی صد تک بڑھا دی ہے۔
گداگروں کی عید شروع ہوگئی
ماہ رمضان آتے ہی گداگروں کی ایک بڑی تعداد کراچی کا رخ کرتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور ان کی اکثریت جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، راجن پور، خان پور کٹورہ، صادق آباد اور بہاول پور سے تعلق رکھتی ہے۔ شہر کے تجارتی مراکز کلفٹن، ڈیفنس، نارتھ ناظم آباد، حیدری، گلشن اقبال، طارق روڈ اور صدر کے بازاروں اور ٹریفک سگنلز پر گداگر بچے، خواتین اور مرد مختلف واسطے دے کر گداگری کرتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں بعض دکان داروں کے تجربات کی روشنی میں لگائے گئے ایک اندازے کے مطابق پیشہ ور گداگر شہر میں عام دنوں میں صرف دکانوں سے سالانہ بتیس ارب چالیس کروڑ روپے کمالیتے ہیں۔ دیگر گداگروں کی آمدن اس کے علاوہ ہے۔ اور رمضان کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں تقریباََ ایک لاکھ سے زاید گداگر سڑکوں، چوراہوں ،بس اسٹاپس ، پیٹرول پمس اور مختلف کاروباری و تجارتی مراکز کے پاس بھیک مانگتےہیں۔
ان گداگروں میں بچے ،خواتین ، بوڑھے اور مصنوعی معذوروں کی بہت بڑی تعداد فٹ پاتھ پر بھی قبضہ جمائے ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر ان فقیروں کے نیٹ ورک میں پولیس کے علاوہ دیگر اہم شخصیات بھی ملوث ہیں جو ان بھکاریوں کے ذریعے منشیات کی فروخت کے علاوہ خون فروشی، جسم فروشی اور دیگر گھنائونے جرم بھی کرواتے ہیں۔ انسداد گداگری ایکٹ موجود ہونےکے باوجود پولیس اور نہ ہی دیگر انتظامی ادارے گداگروں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ عام دنوں میں ان بھکاریوں کو 8 سو سے ایک ہزار اور رمضان میں2ہزار روپے یومیہ تک اجرت دی جاتی ہے۔ آج ہر گلی کوچے اور بازار میں گداگروں کے غول کے غول شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور پولیس ان بھکاریوں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ گروہ کے سربراہ گداگروں کو لانے اور لے جانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔
مختلف شاپنگ سینٹرز، گلیوں، محلوں اور ٹریفک سگنلز کے الگ الگ نرخ ہوتے ہیں جن کا تعین یہ مخصوص گروہ کرتےہیں۔ ذرایع بتاتے ہیں کہ شاپنگ سینٹرز، گلیوں، محلوں اور ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگنے کے لیے ٹینڈرز کی طرز پر باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں اور زیادہ منافع بخش جگہیں منہگے داموں مخصوص گروہوں کو باقاعدہ الاٹ کی جاتی ہیں اور پولیس بھی اس گھناؤنے عمل میں برابر کی حصے دار ہوتی ہے اور متعلقہ تھانوں کو باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے۔ شہر میں مختلف گروہوں کے زیرانتظام گداگری کا پورا نیٹ ورک چلایا جاتاہے اور کوئی بھی مستحق یا مجبور شخص گداگر مافیا کی مرضی کے بغیر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دھندے میں صرف آمدن ہی آمدن ہے جس کی وجہ سے ان گداگروں میں سے بعض کروڑ پتی بھی ہیں جو بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں، لکھ پتی ہونا تو عام سی بات ہے۔ بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو بھیک کے پیسوں کوسونے کی شکل میں محفوظ کرتی ہے۔
عوام اور حکومت، دونوں کو اب مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ لوگوں کو بھکاری بنانے کے بجائے اگر انہیں نوکری فراہم کردی جائے یا انہیں ہنر مند بنادیا جائے تو وہ اپنی روزی خودکمانے کے قابل ہوسکتے ہیں اورپیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینے سے نہ صرف گداگری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہےبلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔
دوسری تصویر
ہماری سرحدوں سے پرے دبئی پولیس نے رمضان المبارک کی آمد سے قبل اور دوران، گداگری کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔ اس انسدادِ گداگری مہم کا مقصد کمیونٹی کے ارکان میں گداگری کے خلاف شعور اجاگرکرنا اور خیرات، صدقات اور زکوٰۃکی ادائیگی کےجائز اور قانونی ذرایع سے آگاہ کرنا ہے۔ مہم کا نعرہ ’’بھیک رحم دلی اور ہم دردی دکھانے کا غلط ڈراما‘‘ ہے۔
پولیس جنرل ہیڈکوارٹر میں مارچ کے دوسرے ہفتے میں ایک پریس کانفرنس میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کرمنل انوسٹی گیشن بریگیڈیئر سعید سہیل ال عیالی نے بتایا تھاکہ بھیک مانگنے کا غیر مہذب طریقہ رمضان المبارک میں زور پکڑ لیتاہے، لوگ بھیک منگوں سے دھوکا نہ کھائیں ،کیوں کہ بھیک دیگر جرائم کا پیش خیمہ ہوتی ہے جن میں نقب زنی اور بچوں کو ورغلانے کی وارداتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
رمضان کی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی مختلف تصویر
اگرچہ اسلامی تعلیمات ماہ رمضان میں انکسار ، قناعت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے پر زور دیتی ہیں ، تاہم زیادہ تر مسلم معاشروں میں صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ دن بھر کےلیے کھانے پینے سے اجتناب کی مذہبی دلیل کے مطابق اس کا ایک فایدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح انسان بھوک اور پیاس برداشت کر کے غربت کے مارے لوگوں کے دکھ اور درد محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے یورپ اور امریکا تک اور آسٹریلیا سے جنوبی ایشیا تک، جہاں جہاں مسلمان مقیم ہیں، ماہ رمضان میں ایک خاندان کا اوسط ماہانہ خرچ دوگنا ہو جاتا ہے۔
سحر، بالخصوص افطار کے اوقات میں پر تعیش کھانوں ، پھلوں اور مشروبات سے دستر خوان سج جاتے ہیں۔ دن بھر بھوکا رہنے کے بعد افطارکے وقت زیادہ کھا لینے کی وجہ سے بد ہضمی کی شکایات عام ہیں اور سماجی رابطے بڑھانے کے لیے افطار کی دعوتوں کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق رمضان کے مہینے میں عرب دنیا میں کاروبار 87فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی مجموعی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
دفتری اوقات میں سرکاری طور پر کمی کر دی جاتی ہے۔ دفاتر میں موجود افراد زیادہ تر سستی اور کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کے کام تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اس مہینے میں خیرات اور عطیات کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے، تاہم دوسری طرف ہر سرکاری ادارہ ’’عیدی‘‘ وصول کرنے لگتا ہے۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں پر طاری سستی اور کاہلی کی وجہ سے سماجی خدمات کے شعبے متاثر ہوئے۔