23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں منظور کی گئی قرارداد کی یاد میں ہر سال ملک بھر میں ’’یوم پاکستان‘‘ منایا جاتا ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو برصغیر میں برطانوی سامراج کی جانب سے1936ء تا 1937ء میں عوام کو اقتدار سونپنے کے پہلے مرحلے میں جو عام انتخابات کرائے گئے ان میں آل انڈیا مسلم لیگ کو کامیابی نہ مل سکی، ایسے میں مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے۔ تاہم، حالات نے سیاسی زمین ہموار کردی تھی اور یہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ برصغیر میں آزاد مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے۔ چنانچہ، آل انڈیا مسلم لیگ نے 22مارچ 1940ء کو لاہور میں سہ روزہ اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
جب برصغیر کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ مارچ کے آخری ایام میں لاہو ر میں ہونے جارہاہے، تو ان میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔ مسلمانانِ ہند لاکھوں کی تعداد میں نئے ملک کےحصول کی خاطر لاہور میں جمع ہوئےاور وہ اپنے قائد کی آواز سننے کو بیتاب تھے۔ قائد اعظم ؒ فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترے تو لوگوں کا ایک ہجوم اپنے قائد کا شایان شان استقبال کرنے کے لیے موجود تھا، اسٹیشن پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے تقریباً 100منٹ پر مشتمل ایسی تقریر کی کہ ہزاروں کی تعداد میں موجود حاضرین دم بخود رہ گئے۔ قائد نے برملا کہا ’’ ہندو الگ قوم ہیں اور ہم ایک الگ قوم، میں فخر سے کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا رہنما ہوں جبکہ گاندھی خود کو ہندوئوں اور مسلمانوں کا لیڈر کہتے ہیں، وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ ہندو ہیں اور صرف ہندو ئوں کے رہنما ہیں۔ کیا ان کو یہ کہنے میں شرم آتی ہے؟ ‘‘۔ قرارداد کے آخری دن یعنی 24مارچ کوقائد اعظمؒ کے دستخط کے ساتھ ’’جدوجہد پاکستان‘‘ شروع ہوئی۔
1941ء میں مدراس میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد کو پارٹی کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی بنیا د پر تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا لیکن اس وقت تک بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہ ہو سکی تھی، جن پر پاکستان قائم ہونا تھا۔ قراد دا دکی منظوری کے بعد قائد اعظم ؒ نے جواہر لال نہرو اورگاندھی سے متعدد مذاکرات کیے۔ مارچ 1942ء میں کرپس کمیشن اور قائداعظم سمیت دیگر رہنمائوں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے۔ قائد اعظم ؒ ان مذاکرات میں اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
1946ء کے عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ قائد اعظم ؒ کی مدبرانہ قیادت میں مسلمانانِ ہند برصغیر میں اپنی الگ اسلامی جمہوری ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور واشگاف طور پر کہہ دیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اسلامی ماحول میں الگ زندگی بسر کرنے کاموقع دیے بغیر انگریز یہاں سے نہیں جاسکتے۔ 3جون 1947ء کو سلطنت برطانیہ نے برصغیر میں اپنی سب سے بڑی نوآبادی کی آزادی کا اعلان کیا اور ہندوئوں کی متعصب خواہشات کے برخلاف دو قومی نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی کا بھی پروانہ جاری کیا۔
14اگست 1947ء کو و ہ تاریخ ساز دن آگیا جب قائداعظم، ان کے رفقاء اور مسلمانانِ ہند کی تاریخی جدجہد سے مجبور ہو کر برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک پاکستان کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دی۔ اس طرح ایک ایسی اسلامی مملکت وجو د میں آئی جسے سیاسی، عسکری اور جغرافیائی اعتبار سے دنیا بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یوں 23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کے بعد تحریک آزادی میں جو تیزی آئی، اس کا نتیجہ 14اگست 1947ء کو آزاد مسلم ریاست پاکستان کی صورت سامنے آیا۔
قراردادِ پاکستان کے محرکات، وجوہات اور اس کے اثرات سے سبھی واقف ہیں۔ یہ ایک ایسا تاریخ ساز دن تھا، جس نے ہندو رہنمائوں کو دن میں تارے دکھادیے۔ اس قرارداد کی اساس پر چلنے والی سات سالہ جدوجہد کی بدولت جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بھارت کی خوش فہمی تھی کہ پاکستان ایک دن بھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا اور جلد ہندوستان میں شامل ہوجائے گا۔
اسی خوش فہمی میں 74سال سے زائد عرصہ بیت گیا اور تب سے لےکر آج تک نام نہاد سیکیولر ملک بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بھار ت اپنی کینہ پرور فطرت کے باعث پاکستان پر وار کرنے کا موقع تلاش کرے۔
اگرہم اپنے ملک میں دیکھیں تو کیا ہم قرار داد پاکستان کی روح کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں؟ قرار داد تو یہی کہتی تھی کہ ہر شخص کو مکمل آزادی ہوگی، لیکن رحقیقت ماشرے میں ایسا نظر نہیں آتا۔ ارتکاز دولت کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ صحت عامہ اور تعلیم کے سارے مواقع سبھی کو حاصل نہیں ہیں۔
یہی صورتحال روزگار اور انصاف کی ہے ۔ آئیے اس دن کو یومِ تجدید عہد بناتے ہوئے وطن عزیز کی سربلندی کیلئے کوششیں کرنے کا ارادہ کریں۔ ایسے تمام اقدامات کا بائیکاٹ کیا جائے ، جس سے دشمن کو تقویت پہنچتی ہو۔ ہمیں آپس کے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے۔ ہمیں ملک کوصحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا۔ ہمیں دوسروں کو بدلنے کیلئے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔