• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان گناہ گار آنکھوں ، کانوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کی سازش کے بارے میں داستانیں سنی بھی ہیں اور پڑھی بھی ہیں۔ انہی آنکھوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بخوشی تختہ دار پرچڑھائے جانے کے واقعات بھی پڑھے ہیں اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت پر ریاستی جبرو تشدد بھی دیکھا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بیگم نصرت بھٹو اوربے نظیر بھٹو شہید کا صبر، قید اور نظربندیاں بھی ہیں اور آصف علی زرداری کی گیارہ سالہ قید بھی ۔ ہم نےبندوق کی نوک پر منتخب وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ بشمول خواتین کی گرفتاریاں، سزائیں اور جیلیں کاٹنے کے مناظر بھی دیکھے اور جلاوطنی کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے مراحل بھی ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرے۔ہم نے دہشت گردی کے واقعات میں اے این پی کے رہنماؤں کی شہادتیں بھی دیکھی ہیں ،ان شہادتوں کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں نہ پُر ہونے والا سیاسی خلابھی دیکھا ہے اور اس خلاکے نتیجے میں خان صاحب کو خیبرپختونخوا میں ایک مضبوط سیاسی قلعہ فراہم کرنے کا تسلسل بھی دیکھا ہے۔ ہم نےوہ منظر بھی دیکھے ہیں کہ جب دہشت گردی کی آڑ میں ہر طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور خان مخالف تمام سیاسی قائدین جان ہتھیلی پر رکھ کر انتخابی مہم چلا رہے تھے اور صرف ایک جماعت تحریک انصاف ان حملوں سے محفوظ تھی۔ ماضی قریب میں دورِ خان میں ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں کہ جب سیاسی انتقام میں اندھی حکومت ریاستی مشینری کی سرپرستی میں اپنے سیاسی مخالفین بشمول خواتین کو اسپتالوں اور گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں بند کررہی تھی اور کسی خاتون نے اُف تک نہ کی تھی حالانکہ دو دو سال تک کسی عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواستوں پر غور تک نہ کیاتھا۔اب یہ گناہ گار آنکھیں اُلٹا منظر دیکھ رہی ہیں ایک عدالتی ملزم قانون کی عمل داری سے انکاری ہے۔ اُسے صرف عدالت میں پیشی کے دوران جان کا خطرہ ہے لیکن وہ عوامی ریلیوں میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ ہم یہ تماشا بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس عدالت میں ملزم کا کیس چل رہا ہے وہ ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میںپیش کرنے کا حکم دیتی ہے تو اگلے ہی لمحے بڑی عدالت اس کو مکمل عدالتی تحفظ فراہم کر دیتی ہے۔ انہی کالموں میں نشان دہی کی گئی تھی کہ انصاف کے ایوانوں میں ثاقب نثار فیکٹر آنے والے دنوں میں ملزم صاحب کو رہنمائی و مدد فراہم کرے گا۔ آپ کھلی آنکھوں سے اس کے اثرات مستقبل میں مزید گہرے ہوتے دیکھیں گے۔ بات یہیں تک ختم ہو جائے تو ہم بھی صبر کرلیں لیکن آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ معیشت کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے ہماری گردن پر ایسا شکنجہ کسا ہے کہ عام آدمی موت کی التجائیں کررہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پر امریکہ سمیت بیرونی دباؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اسحٰق ڈار صاحب بھی ہمارے ان خدشات کی تصدیق کررہے ہیں کہ بات ایٹمی اثاثوں اور میزائل پروگرام کو محدود کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ جن امریکیوں نے ملزم صاحب کو اقتدار سے نکالنے کی سازش کی تھی وہ گزشتہ ایک ماہ سے متحرک ہیں۔ کبھی وہ ملزم صاحب سے ملتے ہیں کبھی ان کے بیرونی سہولت کاروں سے، یہ سب قوم کے روپے کے عوض ڈالروں میں امریکی لابنگ فرم کوادا کی گئی رقوم کا ہی کرشمہ ہے کہ اب وہی امریکی ملزم صاحب کو ریسکیو کرنے آئے ہیں۔ ہم امریکی سازش کے ابتدائی دنوں میں اس خطرے کا بھی اظہار کرچکے ہیں کہ امریکی سازش کی یہ ہنڈیاکسی مناسب وقت پر بیچ چوراہےمیں پھوٹے گی۔سو یہ گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ہمارے خلاف سازش کیسے کامیاب ہو رہی ہے۔ دشمن نے ہمیں ناکام ریاست قرار دینے کیلئے ماضی میں بھی ایسی کئی سازشی تھیوریاں اپنائیں لیکن ہم ان سے بچ نکلے۔ زمان پارک میں ہونے والے ہنگامے کے تناظر میں جو سازش ناکام ہوئی اس کا جائزہ لینے سے پہلے ہم پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ چار سانحات ایسے ہیں جب پاکستان صوبائیت، لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہوا لیکن خدانخواستہ ٹوٹنے سے بچا۔ 1971ءمیں سانحہ ڈھاکہ کے بعد رونما ہونے والے ان واقعات کے منظر ،پس منظر اور مستقبل پر ان کے اثرات کا تجزیہ کریں تو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ آمریت اور سول حکومتوں کے ادوار میں رونما ہونے والے ان واقعات میں سیاست دانوں نے پوائنٹ اسکورنگ یا ان سانحات کے نتیجے میں سندھ کارڈ استعمال کیا نہ بلوچ یا خیبرپختونخوا کارڈ کھیلا بلکہ سیاسی بصیرت ، تدبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ایسے بحرانوں سے نکالا کہ اگر یہ کارڈ کھیلے جاتے تو آج ہماری سیاسی تاریخ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔ یہ 23 مارچ 1973 ءکی تاریخ ہے جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے پیرا ملٹری فیڈرل سکیورٹی فورس ( ایف ایس ایف) قائم کررکھی تھی۔ اس فورس کے اہلکاروں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں خان عبدالولی خان کی قیادت میں اے این پی کی ریلی پر گولیاں برسائیں، اے این پی کے ایک درجن سے زائد کارکن شہید ہوئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین