• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ایک گلیم میں دو بادشاہ نہیںسو سکتے۔وہ زمانے اچھے تھے اب تو بادشاہ ایک دو نہیں، لاتعداد ہیں۔ ہر ایک امراؤ القیس ہے۔ ہاتھ میں اپنا بنایا ہوا ہدایت نامہ قوم کو پڑھنے کیلئے دیتا ہے بلکہ ضد کرتا ہے کہ میں جو کچھ کہوں وہی سچ ہے۔ اسے کہتے ہیں فسطائیت جب ہر بندہ کہے ’’میں نہ مانوں‘‘ گویا قانون، اخلاق، تہذیب اور سب سے بڑھ کر حکم الٰہی کی نافرمانی کرتا ہے۔ وہ بھی پاکستان اور رمضان المبارک میں کہ جس ماہ کے دوران شیطان قید کردیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو چاہے ٹماٹر بیچنے والے کا ترازو ہو کہ انصاف کے نام پر عدل کا ترازو، دونوں ہی ڈانواں ڈول ہیں۔ وہ بھی اس لئےکہ انصاف کرنے والوں کے قلم میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک، ترازو کے پلڑے کبھی برابر نہیں ہوئے۔ لطف کی بات یہ ہے بلکہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ خود ججوں نے اپنے کئے ہوئے فیصلوں پر ندامت کا اظہار تو کم کم کیا ہے۔ یہ ضرور مانا ہے کہ قانون اور دل کے نہ چاہتے ہوئے بھی حکم حاکم پہ قلم نہیں توڑا، جبراً حکم ماننے کی تقصیر کر بیٹھے۔ وہ چند نام ہیں جو پاکستان کی عدالتی البم میں تفاخر کا احساس دلاتے ہیں۔

اگرروایت یہ پڑی ہو کہ جرنیل ہوں کہ جج، ریٹائرمنٹ پرسوا کروڑ لےکے باہر نکلیں گے، چھوٹا منہ بڑی بات۔ غلام محمد بیراج کی زمین سے لے کر منگلا کی زمینوں کو بطور تحائف، ریٹائرمنٹ کے وقت دینے کی زنبیل باجوہ صاحب کے مالی زائچہ سے، ثبوت حق بن کر سامنے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ججوں اور جرنیلوں میں کیا اب توروایت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اب جس دن سے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چاہے جج اور جرنیل ہو، یہ سب سرکار کے ملازم ہیں۔ انہیں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں، ویسے ساری جنگوں کا انجام بھی ہم نے جنگی قیدیوں کی شکل میں دیکھا ہے۔

آج کے زمانے میں ہر طرف آٹا چھینتے کئی لوگ زمین کا رزق ہوگئے تو مجھے وہ دن بھی یاد آئے کہ جب

ہمارے ملک میں زندہ رہنے کو چائے کا ایک کپ اور سوکھی روٹی مل جاتی تو کافی ٹھہرتی تھی۔ اب یہاں انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پیاز اور ٹماٹر ایک قیمت ہوگئے ہیں، سارے دن کی مشقت کے بعد جو اجرت ملتی ہے اس میں کیا آسکتا ہے۔ دو چپاتی یا ایک نان کتنے ٹکڑے کرو گے کہ سب کوبرابر مل سکے۔ وہی پرانے سیاست کے سوداگر ریہڑے میں لدی بیبیوں کو دیکھ، لیموزین روک کر، ہرکارے کے ہاتھ میں کچھ لفافے پکڑا کر، ریہڑے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عورتوں سے انگوٹھے لگوا کر ہرکارہ اور لیموزین آگے چلے جاتے ہیں۔ ریہڑہ بان گھوڑے کو چابک مارتے ہوئے اپنا حصہ مانگتا ہے۔ نعرہ مار کے کہتا ہے ’’ووٹ کا تماشہ لگنے والا ہے۔ ہمارے بھی اچھے دن آنے والے ہیں۔ ‘‘عورتیں ہنستی ہوئی اپنے گھروں کو چلتی اور نوٹ گنتی جاتی ہیں۔ سامنے سے موٹر سائیکلوں کو تیز چلاتے ہوئے جوان، عورتوں کے ہاتھوں کو خالی کرکے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔

یہاں مجھے خدا کی بستی یاد آگئی۔ ساتھ ہی اے حمید بھی۔ یہ دونوں کتابوں میں بے گھر لوگ ڈھونڈتے، مگر جو ملے اسے خوشدلی سے قبول کرلیتے ہیں۔ انہی دونوں کتابوں میں اس فتنے کا آغاز ہوا تھا۔ وہ تھا محکمہ بحالیات جو آج کل بے شمار لوگوں کے گھروں کے چولہے جلاتا ہے۔ بحالیات کے بعض اعلیٰ افسر ہر نئے آنے والے کی گود بھرتے ہیں اور ہر جانے والے کو جیل کا راستہ دکھاتے ہیں۔ابھی یہاں تک لکھا تھا کہ میں عمران خان کی تقریر مع شور کے سن رہی تھی۔ ٹیلیفون پر اسپین سے میرے بیٹے نے بتایا کہ وہ اپنی چڑیوں کے ناخن کٹوا رہا ہے۔ اور طوطے کی چونچ تیز کروا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کھانے کو کچھ مانگو تو بھوک پلیٹ میں لاکر رکھ دیتے ہیں۔ میں نے کہا کیا سوکھی روٹی بھی نہیں کہ پانی لگا کر نرم کرلوں، وہ بولا پانی کہاں ہے۔ سرکار کے لگائے سارے فلٹر خشک پڑے ہیں۔ اچھا مجھے آٹے کی بھوسی ہی لا دو۔ کمال کرتے ہو۔ آٹا ہوگا تو بھوسی ہوگی۔ بچے رو رہے ہیں ان کو بسکٹ لا دو۔ بسکٹ پر ٹیکس لگ گیا ہے۔ اچھا تو میں سرکار سے شکایت کروں۔ کیا کہا سرکار۔ وہ کہاں ہے سارے تھانے آٹا بانٹ رہے ہیں۔ شاید تمہیں مل جائے سرکار اور آٹا۔

اچھا بس، ترین صاحب بھی پردے سے باہر آرہے ہیں۔ آگے دیکھنے والا منظر ہوگا۔

تازہ ترین