ہمارے تمام سیاسی نیتا عوام کو مسلسل مایوس کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا واحد مطالبہ صرف یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو قابل اعتبار بنایا جائے ، دوسری طرف اسمبلی نامکمل ہے۔ مگر قانون سازی ہو رہی ہےتاہم، کوئی ایسا قانون نظر نہیں آ رہا جو مہنگائی کے خلاف ہو۔نوکر شاہی کا کردار بھی یک طرفہ سا نظر آ رہا ہے۔ آٹے کے بحران نے شہبازاسپیڈ کی اسپیڈ کو خراب کر دیا ہے۔ عوام کو کتنا آٹا مفت دیا جا سکتاہے؟ کیا اس سے مہنگائی ختم ہو جائے گی؟ دوسری طرف سابق سپہ سالار جنرل باجوہ نے عجیب تماشہ لگا رکھا ہے ۔ پہلے انہوں نے جاوید چوہدری کو اپنی شفقت سے نوازا اور ایسا تاثر دیا جیسے وہ اپنی صفائی پیش کر رہے ہوںجب کہ اصولی اور قانونی طور پر وہ دو سال تک مکمل طور پر خاموش رہنے کے پابند ہیں۔ جاوید چوہدری زیرک صحافی ہیں۔ اپنے منظر نامے کی کوئی صفائی پیش نہ کی۔ اب تک باجوہ صاحب کا تمام بیانیہ معرفت کے پردے میں نظر آ رہا ہے۔ پھر یہ بات بھی کسی معرفت والے کے ذریعے میڈیا پر آئی جس میں جنرل کاکہنا تھا کہ میں نے تو نہ انٹرویو دیا اور نہ ہی کوئی بات کی ہے۔ اس ساری صورت حال میں عسکری ادارے اپنی ساکھ کے بارے میں پریشان نظر آ رہے ہیں۔
اس وقت دو صوبوں میں متوقع انتخابات کے تناظر میں عبوری حکومتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اگرچہ ان کا مکمل کردار عبوری ہے۔ مگر ان کے اقدامات تو ایسے ہیں جس کے بعد یوں لگتا ہے جیسے یہ بھی انتخابات میں فریق ہوں۔ ۔ مگر اب تو سب کچھ گڈ مڈ سا نظر آرہا ہے۔ عبوری حکومت کا کردار اور الیکشن کمیشن کا رویہ جمہوریت کے حوالے سے قابل اعتبار نظر نہیں آ رہا۔
مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دھی رانی ہیں، ان کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ آئندہ کی وزیر اعظم کے لئے خواب دیکھ رہی ہیں اور وہ اپنے والد کا مقدمہ بھی دوبارہ لڑنا چاہتی ہیں ۔ ان کے نزدیک سپریم کورٹ نے غلط فیصلہ دیا تھا۔ ہماری عدلیہ ماضی میں کئی ایسے متنازعہ فیصلے دیتی رہی ہے۔ جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت کو سیاست اور جمہوریت کے لئے امرت دھارا کے طور پر پیش کیا تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ نظریۂ ضرورت کے تناظر میں دیکھا جائے تو جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے محدود نکتہ چینی ضرور کی۔ مگر ملک کی عدلیہ سے رجوع نہیں کیا۔ پھر ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کو امریکہ اور فوج نے صدرپاکستان بنا دیا۔ وہ بھی باتیں صرف بناتے رہے۔ ان کے سپوت جو اب وزیر خارجہ ہیں وہ بھی اپنی ماں کے قاتلوں کو نظر انداز کرتے رہے یہ سب کچھ سیاست میں ہو سکتا ہے۔اب آج کل مریم نواز اعلیٰ عدلیہ پر بہت تنقید کر رہی ہیں۔ وہ اپنا مقدمہ دوبارہ لڑ سکتی ہیں مگر ان کو خوف ہے توشہ خانہ کے تحفے ان کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دیں۔ ان کا بیانیہ ہمارے عسکری اداروں کے لئے بھی قابل فکر ہے۔
ہمارے نظام عدل کا حال دیکھیں۔ سیاست کی اس جنگ میں سابق وزیر اعظم کپتان عمران خان پر100سے زیادہ ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ کیا غلط اور جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے پر کوئی سزا ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں کہ ایک سابق وزیر اعظم اپنے اوپر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکا۔پھر اس حوالے سے فوج جس طریقے سے سیاسی اشرافیہ پر تنقید کر رہی ہے، کیا اس پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے؟ فوج کا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں مگر اس کے باوجود حساس اداروں کے کچھ لوگ سیاست میں ملوث نظر آ رہے ہیں ۔ پاکستان کی فوج ایک قومی ادارہ ہے اس کا واحد کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔ اس نازک موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بہت کمی محسوس کی جارہی ہے۔ وہ واحد شخص ہیں جو امریکہ سے بات کر کے آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر قائل کر سکتے ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مشکل سے نکال سکتے ہیں ۔ مگر حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید سیاسی اور مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف والے پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اورا گلے چار ہفتوں تک آئی ایم ایف کی مدد نہ آئی تو ملک عملی طور پر دیوالیہ ہو سکتاہے۔مگر ہماری سرکار سیاست کے تناظر میں ایسے اقدامات کر رہی ہے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے حوالے سے قبول نہیں۔ پھر سرکار کی مشکلات میں جناب وزیر داخلہ کا کردا ر بہت اہم ہے۔ ان کے نرگسی بیان سیاست کو مزید بے توقیر کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی جنگ جارحانہ انداز سے لڑ رہاہے۔ اس ساری صورت حال میں عوام کی مایوسی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ نے بہت ہی مایوس کیا اور اس پر ہماری عدلیہ میں سیاسی اشرافیہ کے کارن جو پھوٹ پڑی ہے اس نے قانون اور آئین کے وقار کوغیرمعمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ان تمام مشکلات کا حل انتخابات کے بعد بھی نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت ضرورت ہے کہ سرکار اپنی متکبرانہ روش بدلے اور اپنے اختیارات کو لگا م دے۔ عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آئین میں درج اصولوں پر ہر ممکن طریقے سے عمل کیا جائے۔ فوج سیاسی اشرافیہ سے مکالمہ کرے اور قابل عمل تبدیلیوں کے ساتھ انتخابات کی بات کی جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)