• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادتیوں کے ازالے کے ساتھ حقوق کی فراہمی میں تاخیر نہ کی جائے

بات چیت:وحید زہیر، کوئٹہ

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب، فاروق سرور اردو، پشتو اور انگریزی زبان کے معروف افسانہ نگار ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنّف اور روزنامہ جنگ کوئٹہ سمیت کئی اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔ پشتو زبان میں تین کتابوں کے علاوہ اردو اور انگریزی میں اُن کی سترہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں، پشتو اور اردو کے معروف ڈراموں میں اداکاری کےجوہر بھی دکھا چکے ہیں۔ 

بہترین پرفارمینس پر صوبائی حکومت، اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے متعدد ایوارڈز اور بے شمار اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان، کوئٹہ میں بحیثیت پروڈیوسر بھی خدمات انجام دیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کے ڈگری یافتہ فاروق سرور سماجی و فلاحی خدمات کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ غریب، مجبور و بے کس افراد کے مقدمات مفت لڑنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جنگ، سنڈے میگزین کے لیے اُن سے کی گئی خصوصی گفتگو، نذرِ قارئین ہے۔

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندانی پس منظر، ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میں 28مئی 1962ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ آبائی تعلق لورالائی کے کاکڑ قبیلے سے ہے۔ لورالائی میں ’’غازی ارسلا پارک‘‘ میرے دادا کے نام سے منسوب ہے، جنہوں نے1880ء میں انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ اس دوران برطانوی دورِ حکومت میں سزا بھی کاٹی، علاقہ بدر بھی ہوئے۔ اُن کی زندگی پر ’’غازی ارسلا‘‘ کے نام سے کوئٹہ ٹی وی سے ایک تاریخی ڈراما بھی پیش کیا گیا، جس میں مَیں نے ’’غازی ارسلا‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ دادا کے ایک کزن، حاجی فتح خان کا شمار کوئٹہ کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا۔ اُن کے نام سے کوئٹہ میں ایک پرانی مارکیٹ اب تک قائم ہے۔

میرے والد، ملک سرور نے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کچھ عرصہ تو ملازمت کی، لیکن پھر جلد ہی ملازمت سے سبک دوش ہوکر وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ وہ خاندانی معاملات کے مقدمات لڑنے میں کافی شہرت رکھتے تھے۔ انتہائی شریف النفس اور پڑھے لکھے انسان تھے۔ تعلیم کے معاملے میں بچپن میں ہم پر بھی بہت سختی کرتے تھے۔ 

آج میں جس بھی مقام پر ہوں، یہ اُن ہی کی تربیت اور سختی کا نتیجہ ہے۔ بچپن میں اُن کی سختی کو بے جا سمجھ کراکثر نالاں رہتا تھا، مگر آج احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ تعلیم و تربیت کے معاملے میں اس قدر سختی نہ برتتے، تو شاید آج میں اس مقام تک نہ پہنچتا۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم، مشنری اسکول سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ پبلک اسکول میں داخل ہوگیا۔ وہاں سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج، کوئٹہ سے ایف اے اور پھر بلوچستان یونی ورسٹی سے  ماسٹرز اور قانون کی ڈگریز حاصل کیں۔

س: لکھنے لکھانے کی ابتدا کیسے کی؟

ج: اسکول کے زمانے ہی سے بچّوں کے مختلف رسائل خصوصاً انگریزی کہانیاں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس زمانے میں بچّوں کا ایک ہفت روزہ اخبار شایع ہوا کرتا تھا، جس کے ایڈیٹر مرحوم صفدر حسین تھے۔ کوئٹہ کے اکثر اسکولوں میں یہ رسالہ بہت مقبول تھا، بچّے بہت شوق سے پڑھتے تھے، تو ہم بھی اُس کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔ پھر میں نے بھی ’’روزنامہ جنگ‘‘ مَیں بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ 

اس وقت جنگ کوئٹہ کے منیجنگ ایڈیٹر، سرکار احمد ہوا کرتے تھے، ان کے مشورے پر افسانہ نگاری شروع کی، تو جنگ ادبی صفحے کے انچارج، ڈاکٹر بیرم غوری نے اس سلسلے میں میری کافی رہنمائی کی۔ ’’روزنامہ جنگ، کوئٹہ‘‘ کے دفترمیں آمد و رفت شروع ہوئی، تو وہاں بلوچستان کے مشہور و معروف شعراء و ادبا عطاشاد، ڈاکٹر تاج رئیسانی، ڈاکٹر فاروق احمد، سعید گوہر، پروفیسر برکت، ڈاکٹر منیر رئیسانی، ڈاکٹر باقی درّانی اور محسن شکیل سمیت بہت سے دانش وَروں اور قلم کاروں سے ملنے اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع ملا۔ نام وَر افسانہ نگار، پروفیسر خلیل صدیقی اور پروفیسر جمشید نے بھی میری کافی حوصلہ افزائی کی۔ جب کہ انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے دوران انگریزی کے باکمال شاعر، پروفیسر وارث اقبال، پروفیسر عبداللہ بلوچ، پروفیسر عبدالرئوف، پروفیسر مجتبیٰ حسین اور ڈاکٹر فاروق احمد نے بھی بھرپور رہنمائی کی۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: آپ نے ریڈیو، ٹی وی کے لیے متعدد ڈرامے لکھے، اداکاری بھی کی، فلموں میں کیوں نہیں گئے؟

ج: تین چار دہائی قبل نیشنل سینٹر اور آرٹس کائونسل نے ہماری صلاحیتیں نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں ریڈیو پر بچّوں کے پروگرامز میں شرکت کیا کرتا تھا۔ اس دوران چھوٹے موٹے خاکے اور ڈرامے بھی لکھنے لگا، تو ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے وابستہ یوسف گل وردگ اور قدوس درّانی میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے باقاعدہ مجھ سے ڈرامے اور خاکے لکھوانے لگے۔

1974ء میں ٹی وی کی آمد کے بعد مَیں نے اداکار اسماعیل شاہ مرحوم کے ساتھ پی ٹی وی کا رُخ کیا۔ پھر پروڈیوسر دُر محمد کاسی، قمبر علی شاہ، طارق معراج، زیب شاہد، دوست محمد گشکوری اور دیگر پروڈیوسرز کے ساتھ ڈرامے کیے۔ میں نے خود بھی کئی ڈرامے لکھے۔ پھر اسماعیل شاہ تو فلموں میں چلا گیا، لیکن میرے اندر کے قلم کار نے مجھے فلموں میں جانے سے روکے رکھا، حالاں کہ میرے ماموں سیٹھ عنایت پشتو فلموں کے معروف اداکار تھے۔

س: آپ نے کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان، کوئٹہ میں بحیثیت پروڈیوسر بھی خدمات انجام دیں، لیکن پھر جلد ہی اس شعبے کو خیر باد کہہ کر وکالت کی طرف آگئے، تو اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟

ج: ٹی وی کی آمد کے بعدریڈیو سے اربابِ اختیار کی توجّہ ہٹنے اور ادارے کا بجٹ بتدریج کم ہونے سے اس میڈیم کو کافی نقصان پہنچا۔ جب مَیں نے بحیثیت پروڈیوسر وہاں ملازمت کا آغاز کیا، تو اسکرپٹ بھی خود ہی لکھنا ہوتا تھا اور صداکاری بھی خود ہی کرنی ہوتی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ریڈیو پاکستان زبوں حالی کے بعد انٹرنینٹمنٹ فنڈ اور مہمانوں کے لیے اعزازیہ بھی بند ہوگیا۔

ان عوامل کی بنا پر میرے لیے وہاں کام کرنا ممکن نہ رہا، تو میں نے ریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہہ کروکالت کا پیشہ اختیار کرلیا۔ پھر پرائیویٹ چینلز شروع ہونے کے بعد پی ٹی وی کےساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ ماضی کا تسلسل برقرار نہ رہنے کی وجہ سے ادب اور فن سے ناآشنالوگ آگے آگئے، جس سے نہ صرف نئے فن کاروں، اداکاروں اور قلم کاروں کی آمد رُک گئی، بلکہ بلوچستان میں تفریحی اور عوامی تربیت کی فضا بھی مکدر ہوگئی۔ اور پھر سیاسی کھینچاتانی کے باعث اخلاقی اقداربھی تباہ ہوتی چلی گئیں۔

س: اپنے اہلِ خانہ سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: میرے چار بچّے ہیں، بڑی بیٹی لٹریچر کی طالبہ ہے، جب کہ بیٹا، سنزر خان آئی ٹی یونی ورسٹی سے گریجویشن کررہا ہے۔ ان سے چھوٹے دو بچّے اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔ موجودہ دَور بجا طور پر جدید ٹیکنالوجی کے عروج کا دَور ہے۔ ہمارے زمانے میں تو صرف اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہی ابلاغ کا موثر ذریعہ تھے، جو تفریح بھی فراہم کرتے تھے اور خبریں بھی۔ لیکن انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی آمدکے بعد سب کچھ بدل کر رہ گیا ہے۔ 

ویسے سوشل میڈیا کے اس دَور میں میرے ادب کی دنیا میں متحرک رہنے میں میرے بیٹے سنزر خان کابڑا ہاتھ ہے، ایک طرح سے وہ میرا استاد بھی ہے۔ لیپ ٹاپ اور موبائل ایپلی کیشنزکے استعمال میں وہ میری بہت مدد کرتا ہے۔ اگر اس کا ساتھ نہیں ہوتا، تو شاید میں ملکی اور بیرونی دنیا میں کسی سے رابطے میں ہوتا، نہ ہی میری تحریریں پڑھنے والوں تک پہنچتیں۔ میرے افسانے، ڈرامے اور کالم وغیرہ میرا بیٹا ہی انگریزی اور اردو میں کمپوز کرتا ہے۔

س: اپنی شایع شدہ کتابوں سے متعلق بتائیے؟

ج: میری اب تک 17کتابیں شایع ہوچکی ہیں، جن میں تین کتابیں پشتو زبان میں ہیں۔ میں نے جب اپنے پشتو افسانوں کا مجموعہ ’’دف‘‘ شایع کروانے کا قصد کیا اور سب سے پہلے اپنی والدہ سے اس کا ذکرکیا، تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ قریب ہی بیٹھی میری پھوپی نے ہماری بات سُنی تو کتاب کی اشاعت اور اخراجات کے لیے فوراً 18سو روپے نکال کرمجھے تھمادیئے۔ کتاب چھپوانے کا مرحلہ آیا، تو میرے دوست اور معروف اداکار، جمال شاہ نے نہ صرف میری پُرخلوص مدد کی بلکہ کتاب کا ٹائٹل بھی انھوں نے خود ہی بنایا۔ 

پہلی کتاب شایع ہوئی، تو اُسے بہت پذیرائی ملی، اس کے بعد اُردو زبان میں ’’ندی کی پیاس‘‘ شایع ہوئی، جسے ادبیاتِ پاکستان کی جانب سے ’’خوش حال خان ایوارڈ‘‘ ملا۔ یہ صوبۂ بلوچستان میں اردو ادب کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ بعدازاں، میری متعدد کتابیں شایع ہوئیں، جن میں لیوا، ساگوان، بھیڑیا، ادبِ سحر(دو مجموعے)، پیاس، دریاتندہ ودیگر شامل ہیں۔ جب کہ سارک نمبر کے حوالے سے شایع ہونے والی کتاب میں پاکستان سے معروف ادیب انتظار حسین اور میرے افسانے منتخب کیے گئے۔ میرے مختصر افسانوں کا ایک مجموعہ مشہور سرائیکی ادیب، حفیظ خان نے شایع کروایا۔

س: مُلک، خصوصاً بلوچستان میں پشتو ادب اور فن کی ترویج کی کیا صورتِ حال ہے؟

ج: اس حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال تسلّی بخش نہیں۔ اگرچہ صوبے میں پشتو اکیڈمی، ادبی ملگیری لکھولی اور کئی ادارے پشتو ادب کی ترویج میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ پشتو زبان کے ٹی وی چینل بھی ادب اور فن اجاگر کررہے ہیں۔ ادارئہ ثقافت بلوچستان کی جانب سے بہترین کتابوں پر ہر سال انعام دیا جاتا ہے۔ ’’پشتو اکیڈمی، کوئٹہ‘‘ کے تحت پشتو زبان و ادب کی ترویج کے لیے بلوچستان یونی ورسٹی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں میں بھی بہت کام ہورہا ہے، مگر ان سے وابستہ افراد اوردیگر اداروں کو اس طرح سہولتیں دست یاب ہیں، نہ ہی پذیرائی مل رہی ہیں۔ دراصل اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ صوبہ سیاسی، سماجی و ثقافتی حوالے سے ہمیشہ سے محرومیوں کا شکار رہا ہے، معدنی ذخائر سے مالا مال اس صوبے پر بدقسمتی سے بہت کم توجّہ دی گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے اورمحبتوں کی اس سرزمین کو حقوق کی فراہمی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

س: آپ اپنی تحریروں، خصوصاً افسانوں میں علامت نگاری کے قائل ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: دیکھیں، علامت نگاری سے مراد مختلف افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کو مخصوص الفاظ و اشارات کی صورت بیان کرنا ہے۔ جس طرح ریاضی میں جمع، تفریق، ضرب، تقسیم وغیرہ کے لیے علامتیں وضع کی گئی ہیں، اسی طرح ادب میں شاعروں اور ادیبوں نے بھی مختلف افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کے لیے علامتیں تخلیق کیں۔ علامت نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ یہ رجحان یورپی ادب سے اردو ادب میں دَر آیا اور بہت کم عرصے میں اردو ادب میں رواج پا گیا۔ 

علامت نگاری نے نہ صرف شاعری میں نظم اور غزل کو اِک نئے جہاں سے روشناس کروایا، بلکہ افسانے میں اس کا استعمال زیادہ ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ علامت نگاری ایک ایسا آرٹ ہے، جسے کافکا، جارج اورویل، انتظار حسین اوربہت سے ادیبوں نے اپنایا۔ خود مَیں نے بھی اپنی تحریروں میں علامت نگاری کا سہارا لیا۔ دراصل، جس طرح انسانی اقدار سے محبت کیے بغیر ترقی ممکن نہیں، اسی طرح مثبت علامات سے روگردانی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ کتابوں سے آگہی ملتی ہے، آگہی سے شعور پیدا ہوتا ہے اور یہی شعور دنیا کا ہم پلّہ ہونے کے لیے امن کا دامن تھامنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب کہ علامت نگاری کا بھی واضح پیغام یہی ہے۔

س: صوبہ بلوچستان میں اکادمی ادبیات کے کردار کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: اکادمی ادبیات نے ریجنل ڈائریکٹر افضل مراد کی سربراہی میں مثالی کام کیے۔ اس ادارے کے تحت متعدد قومی و بین الاقوامی سیمینارز منعقد ہوچکے ہیں۔ یہ پاکستان کی مختلف زبانوں کے قلم کاروں کو ایک اچھا علمی و ادبی ماحول فراہم کرنے کا ذریعہ ہے، لیکن افسوس افضل مراد کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ادارہ پستی کی جانب گام زن ہوگیا ہے، اس ادارے پر اُس طرح توجّہ نہیں دی جارہی، جیسے پہلے دی جاتی تھی۔ بعض معذور، بیمار قلم کاروں کے اعزازیے روک دیئے گئے ہیں، تاہم ادیب یا فن کار کبھی مایوس نہیں ہوتا۔

مایوس کُن اور دگرگوں صورتِ حال کے باوجود انفرادی سطح پر شعراء و ادباء کی تخلیقات کا عمل جاری ہے۔ علم و ادب کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت مختلف تنظیمیں بھی فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ حال ہی میں ممتاز اداکار ایوب کھوسو کی سربراہی میں فن کاروں اور ادیبوں کے لیے ایک سماجی و فلاحی تنظیم ’’گُرگ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ 

جس کے تحت، کس مپرسی کے شکار فن کاروں کے لیے امدادی پروگرامز شروع کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ جلد ہی پی ٹی وی سے بھی معاشرتی موضوعات پر دل چسپ ڈرامے پیش کرنے کا پروگرام ہے۔ اس ضمن میں میرے 24قسطوں پر مشتمل سیریل کی ریکارڈنگ بھی عن قریب شروع ہونے والی ہے۔