• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تُرکیہ میں صدارتی، پارلیمانی انتخابات: سخت ترین مقابلہ متوقع

تُرکیہ میں14 مئی کو الیکشن ہو رہے ہیں۔ صدر اردوان نے حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اعلان کیا کہ وہ14 مئی کو انتخابات کروانا چاہتے ہیں، تاہم اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اِس کا حتمی اعلان الیکشن کمیشن کاؤنسل کرے گی، جس نے اُن کے فیصلے کی توثیق کی۔تُرکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ ہو رہے ہیں۔ترقّی پزیر ممالک میں یہی معمول ہے کہ اِس طرح اخراجات کی مد میں خاصی بچت ہوجاتی ہے، البتہ بھارت کو بڑی آبادی اور29 صوبوں کی وجہ سے اِس ضمن میں استثنا دیا جاسکتا ہے۔ مئی کے انتخابات میں دو اتحاد حصّہ لے رہے ہیں۔

ایک پیپلز الائنس ہے، جو صدر اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی اور دیگر چار جماعتوں پر مشتمل ہے، جب کہ اپوزیشن کے کمال کلی دار اغلو کا نیشنل الائنس اُن کے مدّ ِ مقابل ہے، جس میں چھے جماعتیں شامل ہیں۔اکثر ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ اِس مرتبہ بہت سخت مقابلہ ہوگا اور یہ تُرکی کی حالیہ تاریخ کا سب سے اہم الیکشن ہے کہ اِس میں صدر اور پارلیمان دونوں کی اکثریت کا فیصلہ ہوگا۔ تُرکیہ کی معیشت اِن دنوں پاکستان کی طرح شدید دباؤ میں ہے۔

بلند ترین افراطِ زر، بے روزگاری اور کرنسی کی غیر معمولی گراوٹ نے برادر مُلک کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں،اِسی پس منظر میں اکثر ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر اردوان جیسے مقبول عوامی لیڈر کو بیس سال میں پہلی مرتبہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ نیک ٹو نیک مقابلے کا سامنا ہے۔کورونا وبا اور یوکرین جنگ نے ترقّی پزیر ممالک کا کباڑا تو کیا ہی،ترقّی یافتہ اور قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کو بھی ایسے جھٹکے دیئے کہ اُنھیں اپنی پالیسیز میں وہ تبدیلیاں لانی پڑیں، جن کا سال بَھر قبل تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔تیل پیدا کرنے والے ممالک، ایران اور سعودی عرب کے حالیہ معاہدے کو اِسی تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ 

ماہرین کی رائے ہے کہ تُرکیہ کی معیشت اِس نہج پر پہنچ چُکی ہے کہ اب جو کوئی بھی حکومت میں آئے گا، اقتدار اُس کے لیے کانٹوں کی سیج ہی ثابت ہوگا۔تُرکیہ بیک وقت یورپ اور ایشیا کا حصّہ ہے۔وہ دونوں جگہ اپنا بھرپور کردار ادا کرتا رہا، تاہم آنے والی حکومت کے لیے کسی خارجہ میدان میں بڑی پیش قدمی کی بجائے لوگوں کو معاشی طور پر مطمئن کرنا زیادہ اہم ہوگا۔ دو مہینے پہلے آنے والے قیامت خیز زلزلے نے معیشت کو مزید زخم لگائے ہیں اور وہ ان سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ظاہر ہے، ایسی صُورت میں اُس کا دوسرے ترقّی یافتہ ممالک پر انحصار بڑھے گا۔اِنہی عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں مئی کے انتخابات میں اُتری ہیں۔

تُرکیہ، اناطولیہ کے جزیرہ نُما میں واقع ایک بین البرِ اعظمی ریاست ہے۔ اس کا بڑا مغربی حصّہ ایشیا میں اناطولیہ اور چھوٹا حصّہ یورپ میں جنوبی بلکانز میں ہے۔اس کی سمندری سرحدیں بلیک سی، ایجین سی اور بحرِ روم سے ملتی ہیں، جب کہ خشکی پر یہ ایران، عراق، شام، آرمینیا، جارجیا، یونان، بلغاریہ اور قبرص کا پڑوسی ہے۔ فوجی اور سیاسی زبان میں ایسے ہی ممالک کو جیو اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل کہا جاتا ہے، اِسی لیے تُرکیہ کا عرب دنیا، ایران، افغانستان، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور یورپ میں ہر جگہ کردار نظر آتا ہے۔

تازہ ترین مثال یوکرین جنگ کی ہے، جس میں صدر اردوان نے سب سے پہلے ثالثی کی کوشش کی، لیکن بین الاقوامی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ جنگ بندی میں تو کام یاب نہ ہو سکے، تاہم اُنہوں نے روس اور یوکرین سے فوڈ سپلائی تو کسی حد تک بحال کروا ہی دی۔تُرکی کا دارالحکومت، استنبول ہے، جسے ماضی میں قسطنطنیہ(Constantinople) کہا جاتا تھا، جو عثمانی تُرکوں کی فتح سے پہلے بازنطینی حکومت ہی نہیں، پورے یورپ کا سیاسی دِل اور قوّت کا مرکز مانا جاتا تھا اور اِسی لیے وہ ترکی کو معاف نہیں کرسکے، جب تک کہ اُنھوں نے معاہدۂ لوسین کے تحت اس کے حصّے بخرے نہ کردیئے۔

آج بھی یورپ میں قسطنطنیہ کی شکست کا سوگ ہر سال روشنیاں گُل کر کے منایا جاتا ہے۔ عثمانی تُرک خلافت ایک سُپر پاور کے طور پر عروج میں آئی اور اس نے یورپ کو بڑی حد تک سرنگوں کردیا۔ ایک وقت میں اُس کی فوجیں فرانس کی سرحدوں تک جا پہنچی تھیں۔اُدھر افریقا اور عرب دنیا پر اُس کی حاکمیت قائم تھی، تاہم اس خلافت کے زوال کی داستان بھی مسلم تاریخ کا ایک اندوہ ناک، سیاہ باب ہے۔اگر اس میں غیروں کی کاوشیں کارفرما تھیں، تو اپنوں کی نااہلی بھی شامل تھی۔ 

نئی ٹیکنالوجی اور تعلیم کو نظر انداز کرنے پر وہ وقت بھی آگیا، جب عثمانی سلطنت’’ مردِ بیمار‘‘ کہلائی۔پھر پے درپے شکست کے بعد روس، فرانس اور برطانیہ نے اسے آپس میں تقسیم کرلیا۔ مصطفیٰ کمال اَتا تُرک نے گیلی پولی کے مقام پر اتحادی فوجوں کو شکست دی، لیکن اُنہوں نے عثمانی خلافت کی بحالی کی بجائے جدید جمہوری تُرکی کی بنیاد ڈالی، جو اب ہمارے سامنے ہے۔ معاہدۂ لوسین پر24 جولائی1923ء کو دست خط ہوئے، جس میں اُس وقت کی بڑی طاقتیں اور تُرکی سے براہِ راست تعلق رکھنے والے ممالک شامل تھے۔ یعنی برطانیہ، فرانس، جاپان، اٹلی، رومانیہ، سربیا اور یونان۔ تُرکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔اِس وقت وہاں جمہوری صدراتی نظام ہے۔ 

پہلے یہ پارلیمانی جمہوریت تھا، جسے صدر اردوان نے پانچ سال قبل ایک ریفرنڈم کے ذریعے تبدیل کردیا۔معاشی لحاظ سے اس کا شمار ایمرجنگ اکانومیز میں ہوتا ہے۔ یہ جی۔20 اور اقتصادی ترقّی کی تعاون تنظیم کا رکن ہے، جو دنیا کی ترقّی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔تُرکیہ ٹیکسٹائل، صنعتی پراڈکٹس، گاڑیوں، تعمیراتی انڈسٹری، الیکٹرانکس اور گھریلو استعمال کے سامان کی پیداوار کا لیڈر شمار ہوتا ہے۔ یہ اہم مالیاتی اداروں عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشین ترقّیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا بھی رُکن ہے۔ 2021 ء میں اس کی جی ڈی پی گروتھ11.1 تھی، جب کہ2022 ء میں اِس کی برآمدات254 بلین ڈالرز تھی اور اب درآمدات364 بلین ڈالرز ہیں، یعنی اسے 111 بلین ڈالرز خسارے کا سامنا ہے۔

2003 ء سے2023 ء تک، یعنی گزشتہ بیس برسوں سے صدر اردوان اقتدار میں ہیں۔ پہلے وہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہے اور اُن کی جماعت، جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سیاسی اُفق پر چھائی رہی۔ صدر اردوان نے تُرکیہ میں کئی قابلِ فخر اور قابلِ تحسین کارنامے سرانجام دیئے، خاص طور پر اُن کی اقتصادی میدان میں پیش رفت ہر جانب سے تعریفیں وصول کرتی رہی۔ اِسی لیے تُرک قوم میں وہ بہت مقبول ہیں۔ اُن کے اوّلین دو ادوار مکمل طور پر مُلک کے معاشی استحکام پر مرکوز رہے اور تُرکیہ، جو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جاتا تھا،2006 ء میں اس سے نجات حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ اس دَوران تُرکی نے غیر معمولی اقتصادی ترقّی دیکھی۔

بڑے بڑے منصوبوں نے مُلک کی شکل ہی بدل ڈالی اور وہ ترقّی پزیر ممالک، خاص طور پر مسلم دنیا کا رول ماڈل بن گیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ کارنامہ مہاتیر محمّد کے دور میں ملائیشیا میں دیکھا گیا تھا۔استنبول کی زیرِ سمندر سرنگ کے ذریعے یورپ کو ایشیا سے ملا دیا گیا، اب چین سے برطانیہ تک، براستہ ٹرین یا بس یورپی گزرگاہ سے جانا ممکن ہے۔ جدید تُرکیہ کے بانی، مصطفیٰ کمال اَتا تُرک فوجی تھے اور اُن کے فوجی انقلاب کو ینگ ٹرکس کی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ تاہم، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کا عرصۂ دراز تک مُلکی معاملات میں بہت عمل دخل رہا، اسے تُرکی کے دستور کی محافظ بھی کہا جاتا رہا۔تاہم،صدر اردوان کا ایک اہم قدم یہ تھا کہ اُنہوں نے اس فوجی عمل دخل کو ختم کیا اور مُلک کو مکمل جمہوریت کی راہ پر ڈال دیا۔

تُرکی کے انتخابات کا بنیادی ایشو معیشت ہے۔منہگائی، بے روز گاری، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، لیرا کی قدر میں غیر معمولی کمی اور شامی مہاجرین کا دباؤ الیکشن کے اہم موضوعات ہیں۔ روس اور ایران کی دخل اندازی نے شامی اپوزیشن کو کام یاب نہ ہونے دیا، تو دوسری طرف، اوباما نے اُسے تنہا چھوڑ دیا۔مجبوراً اردوان کو روس سے ہاتھ ملانا پڑا۔یاد رہے، تُرکی نیٹو کا اہم رکن ہے، بلکہ وہ اس کا شمالی دفاعی دروازہ ہے، جو روس کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے، تاہم، امریکا سے ناراضی کے بعد روس، ترکیہ تعلقات بہتر ہوئے۔

یوکرین جنگ میں اس نے ثالثی کی کوشش کی، لیکن یوں لگتا ہے کہ تُرکی کی یہ پالیسی کام یاب نہ ہوسکی۔تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے کے بعد صدر اردوان نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے مُلکی آئین میں ترمیم کرکے اسے پارلیمانی جمہوریت سے صدراتی جمہوریت میں بدل ڈالا۔اور وہ اگلے ہی انتخابات میں مُلک کے پہلے صدر منتخب ہوگئے۔صدر اردوان کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام اِس لیے ضروری ہے کہ جو معاشی کام یابیاں اُن کی پارٹی اور حکومت نے2014 ء تک، یعنی پہلے دس برس میں، اپنی بہتر پالیسیز کی وجہ سے حاصل کیں، اُنہیں استحکام دیا جاسکے، جب کہ اپوزیشن، ری پبلکن پارٹی کا کہنا تھا کہ اس سے شخصی نظام کو تقویّت ملے گی۔تاہم، صدر اردوان کی توقّعات کے برعکس تُرکیہ کی معیشت نیچے کی طرف لڑھکنے لگی، جس کی بنیادی وجہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا۔

یاد رہے، گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان کا بھی یہ اہم مسئلہ رہا،لیکن اب کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ صفر ہوگیا ہے۔ تُرکی میں کرنٹ اکاونٹ خسارے کی وجہ سے دو اور معاشی مشکلات پیدا ہوئیں۔ایک تو افراطِ زر بڑھنے لگا، جو اِس وقت بلند ترین سطح پر ہے اور دوسری طرف، اس کی کرنسی، لیرا کو زبردست گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔۔جی ڈی پی گروتھ جو اردوان کے پہلے دس سال میں چھے تک پہنچ گئی تھی، اب3.6 کے لگ بھگ ہے۔ بلاشبہ، اِن معاشی مشکلات میں تین فیکٹرز نے اہم کردار ادا کیا۔ عالمی وبا کا دبائو، یوکرین کی جنگ اور حالیہ زلزلہ، جس میں لگ بھگ46 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔تاہم، یہ آج کی گراوٹ نہیں، بلکہ گزشتہ پانچ برس سے اقتصادی حالت دبائو میں ہے۔تُرکی بیرونی اشیاء پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، انرجی تو مکمل طور پر درآمد کی جاتی ہے، جس کا بِل بہت بڑھ گیا ہے۔

پھر دوسری اشیاء، جن میں خوراک بھی شامل ہے، وہاں بہت منہگی ہوگئی ہیں۔پاکستان میں کچھ عرصے پہلے تک تُرکی، بیرونی سیّاحت کا پسندیدہ اسپاٹ تھا، لیکن اب حالات مختلف ہیں، کیوں کہ زلزلے نے شہریوں کے لیے جو مشکلات پیدا کیں، اُن میں وہ ہم جیسے ممالک کے سیّاحوں کو پسند نہیں کرتے، جو خود کسی نئی منزل کی تلاش میں ہوں۔یہ تُرکیہ جانے اور وہاں سیٹل ہونے کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے بھی پریشانی کی بات ہے۔وہاں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ بڑے منصوبوں کے لیے رقم نہیں رہی، کیوں کہ حکومت کو الیکشن کی وجہ سے بے تحاشا سبسڈیز دینی پڑ رہی ہیں، جو کسی بھی معیشت کے لیے آزمائش بن جاتی ہیں، خاص طور پر اگر برآمدات نہ بڑھیں۔

سعودی عرب نے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے حال ہی میں اردوان حکومت کو پانچ ارب ڈالرز بینک ڈیپاذٹ کے طور پر دئیے ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے پاکستان میں عالمی منہگائی سے قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوا، وہی صُورتِ حال تُرکی میں ہے۔لوگوں کے لیے اپنے بجٹ میں گزارہ مشکل ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے، یہ اپوزیشن کے لیے بہت ہی ساز گار ماحول ہے۔اپوزیشن کے امیدوار، کمال کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔یہ جماعت، جسٹس پارٹی سے پہلے ایک عرصے تک اقتدار میں رہ چُکی ہے اور پارلیمانی نظام کی حامی ہے۔

تاہم، اب اس کا زور معیشت پر ہے، البتہ اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدارتی نظام ہی معاشی کم زوری کی بڑی وجہ ہے۔ صدر اردوان اور کمال کلی دار اوغلو کے درمیان وَن ٹو وَن مقابلہ ہوگا،جب کہ ارکانِ پارلیمان کے لیے دونوں اتحادوں نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ تُرکی میں فوج کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے، لیکن آخر کار اردوان اور سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے یہ پندرہ سال قبل اختتام کو پہنچا۔ اب ہر ادارہ، بڑی حد تک اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا ہے۔

اردوان نے اپنے صدارتی دَور میں خارجہ پالیسی میں خاصی تبدیلیاں کیں، خاص طور پر ناکام فوجی بغاوت کے بعد وہ امریکا کے خلاف انتہائی تلخ بیانات دیتے رہے۔اُنھوں نے امریکا اور یورپ پر کُھل کر الزامات لگائے کہ وہ فوجی بغاوت کے دَوران اُن کے مخالفین کے ساتھ تھے۔وہ یورپ سے بھی ناراض تھے، کیوں کہ اُنہیں یورپی یونین میں شمولیت میں ناکامی ہوئی۔ اسرائیل سے تعلقات تقریباً منجمد کر کے سفیر واپس بلا لیا اور فلسطین کاز کے چیمپئن بن کر سامنے آئے۔ روس سے دوستی کی، حالاں کہ اُس نے شام میں اسد حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے پانچ لاکھ شامی شہریوں کو بم باری کرکے مار دیا تھا اور ایک کروڑ بے گھر ہوئے تھے۔

علاوہ ازیں، اُن کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بھی انتہائی نچلی سطح کو چُھونے لگے تھے، جب اُنہوں نے سعودی ولی عہد پر ایک صحافی کے قتل کا الزام لگایا تھا۔اِن اقدامات سے اُن کی معاشی پالیسی پر منفی اثرات مرتّب ہوئے۔اردوان نے دو سال پہلے اِس پالیسی سے واپسی اختیار کی اور اب وہ نیٹو کے فعال رُکن ہیں۔ یوکرین جنگ میں ثالثی کے ساتھ نیٹو کے اہم اجلاسوں میں شرکت کی۔اسرائیل سے تعلقات بحال کیے، سفیروں کے تبادلے کے علاوہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے انقرہ کا دورہ کیا۔اردوان خود سعودی عرب گئے اور تعلقات بحال کیے، ایک ماہ قبل سعودی عرب نے تُرکیہ کو پانچ ارب ڈالر کی امداد دی ہے تاکہ زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہ سکیں۔ اِسی لیے اب تُرکیہ کی معیشت میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔

افراطِ زر جو ریکارڈ 83 فی صد ہوگیا تھا، اب55 فی صد پر آچکا ہے، لیرا کی گراوٹ بھی رُک گئی ہے، تاہم جو دھچکا معیشت کو پہنچ چُکا ہے، اُس کے ازالے میں کئی سال لگیں گے۔ یہ کوئی کھیل تماشا نہیں اور یہی سبق ساری ترقّی پزیر معیشتوں کے لیے ہے، جو ایسے ایڈونچر کرتے رہتے ہیں۔تُرکیہ دنیا کا ایک اہم مُلک ہے۔ وہ سُپر پاور کے درجے پر فائز رہا۔ یورپ پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔عرب دنیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اِسے اہم مقام حاصل ہے۔ اِسی لیے اُس کے صدارتی انتخابات کے نتائج ساری دنیا کی توجّہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور سب کو14 مئی کا انتظار ہے۔