• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کوتاہ نظری سے ملاحظہ کیا جائے تو 4اپریل کے فیصلے سے پاکستان کا عدالتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بحران بھی ختم ہو گیا ہےتو غلط نہ ہوگا۔ کیا ’’مدبرانہ‘‘ فیصلہ آیا ہے جس نے تنازعات کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دی ہے۔ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ ہی نہیں دی گئی بلکہ ایک طرح سے انتخابی شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے ،یہ کہ کاغدات نامزدگی کب تک جمع کروائے جا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

اہل وطن کو ہو نہ ہو پی ٹی آئی کے دوستوں کو مبارک، اب آپ سب کے وارے نیارے ہو جائیں گے، آپ کی پارٹی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے،مخالفین سارے کے سارے تتر بتر ہوئے پڑے ہیں گومگو کی اس فضا میں انہیں ٹکٹ بانٹنا تو دور کی بات کاغذات جمع کروانے کی مہلت تک نہیں ملے گی۔ لہٰذا نصرمن اللہ وفتح قریب کا منظر نامہ سامنے ہے، آپ سب کی سیٹیں پکی ہیں جو چند مہینوں بعد یعنی اکتوبر تک منعقد ہونے والے قومی انتخابات کو جتوانے میں پوری معاونت فرمائیں گی۔اقتدار میں فیصلہ کن حیثیت تو پنجاب کو حاصل ہوتی ہے یہاں کیئرٹیکروں کی نہیں جب اپنی حکمرانی ہو گی تو پھر کس کی مجال ہو گی کہ وہ قومی اسمبلی کی کوئی ایک نشست بھی جیت سکے۔

تسلیم کرتا ہے؟اگر درویش پر اعتبار نہیں تو محترم عرفان قادر کو بھی چھوڑ دیں حامد خان صاحب سےاستفسار فرما لیں۔ اور کیا آئین اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی چیف جج بشمول الیکشن کمیشن، انتظامیہ، مقننہ بلکہ پارلیمنٹ کے اختیارات پر بھی براجمان ہو جائے؟ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ کوئی چیف جج انتخابات کی تاریخ اور انتخابی شیڈول جاری کر سکتا ہے اور کیا 14مئی کی تاریخ 90دن کے اندر بنتی ہے ؟نہیں بنتی نا؟ ہر دو صورتوں میں آئینی خلاف ورزی کے مرتکب تو آپ خود ہو رہے ہیں۔جب پوری قوم پورا قومی میڈیا چیخ رہا ہے کہ اس حساس ترین ایشو پر پارٹی بازی کرنے کی بجائے آپ اپنے تمام ساتھی ججز کو ساتھ بٹھاتے ہوئے فل کورٹ کے تحت سماعت کرو تو پھر آپ کو کاہے کا خوف کھائے جا رہا ہے ؟جب 9ججز بیٹھے تھے جنہیں بعد میں سات کر دیا گیا اور انہوں نے سوموٹو کی اس تمام تر کارروائی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چار تین کا فیصلہ صادر کر دیا تو کیا وہ اس عدالت عظمیٰ کے قابل احترام ججز نہ تھے؟اس بنچ کے فیصلے کو آپ نے کیوں ہوا میں اڑا دیا؟اس سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے جب پارلیمنٹ کی قانون سازی تک سوموٹو کو موخر کرنے کا فیصلہ دیا تو ایک انتظامی سرکلر کے ذریعے آپ نے کسی آئینی شق کے تحت اس کی تذلیل فرمائی ؟

کسی بھی جمہوری حکومت کو چاہئے کہ آمریت کہیں سے بھی آئے، پارلیمنٹ جو کہ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے بلکہ آئین اور دیگر تمام اداروں کی ماں ہے اس کی اتھارٹی اور وقار و احترام پر ڈٹ کر کھڑی ہو جائے پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توہین درحقیقت 22 کروڑ عوام کی توہین ہے جو اپنے نمائندگان کو چن کر اپنی ترجمانی کیلئے یہاں بیٹھتے ہیں۔ وہ اگر اپنے ناجائز حکم کی عدولی پر وزیر اعظم کے خلاف اقدام کرتے ہیں تو کرنےدیں، ویسے بھی درویش کی تمنا ہے کہ شہباز شریف کو ایسے ہی باوقار طریقے سے گھر چلے جانا چاہئے تاکہ ان پر چاپلوسی کا جو سنگین دھبہ ہے وہ کسی حد تک دہل سکے۔ان کے بعد طویل لائن ہے خواجہ آصف، رانا تنویر، احسن اقبال اور پھر شاید بلاول کو بھی ایک موقع مل جائے اس عہدے پر براجمان ہونے کا ۔اگر جوڈیشل ایکٹوازم کے نام پر یہاں جمہوریت کا تماشا بنایا جاتا ہے تو بنانے دیں آپ لوگوں کی اپنی بھی تو کوتاہیاں ہیں آپ لوگوں نے پارلیمینٹ کی حقیقی اتھارٹی منوائی کب ہے ؟جب غیر منتخب لوگ منتخب عوامی قیادت کے خلاف گھنائونی کارروائیاں کرتے ہیں یا ان کا تمسخر اڑاتے ہیں تو آپ یہ تماشہ کیوں دیکھتے ہیں؟ گیلانی اور نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا وہ آپ لوگوں نے کیسے ہضم کر لیا اور کیوں کر لیا؟

اگر کسی کے ذہن میں انتخابات سے بھاگنے کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہر گز نہیں ہے کوئی جینوئن سیاست دان انتخابات سے نہیں بھاگ سکتا ۔ آپ لوگ پارلیمنٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کو لاگو ہونے دیں اور جو ظلم 2018میں روا رکھا گیا اس کا کچھ نہ کچھ مداوا ہو جاتا ہے تو کون کافر انتخابات سے بھاگ رہا ہے؟ اس نوع کی دہائیاں دینے والے یاد رکھیں کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قومی و صوبائی انتخابات میں اس نوع کے فاصلے رکھے گئے ہوں۔ یہ ہماری انتخابی روایت ہے جس میں تین دن کے فرق کو بھی یہ کہتے ہوئے آئینی طور پر مٹا دیا گیا کہ مبادا قومی اسمبلی میں جیتنے والا صوبائی انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ اقدام شدید بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جس کے نتائج کاتصور بھی بھیانک ہے اکتوبر کون سا دور ہے تب تک بہت سی صفائیاں ہو چکی ہوں گی، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مقدم ر کھیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئین کی عین مطابقت میں اپنی صفوں کو صاف کرنے کا پورا موقع دیا جائے اور یہ سب پارلیمنٹ کی نگرانی میں ہو ۔

تازہ ترین