• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صنعتیں ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، زرعی شعبے کے بعد یہ شعبہ ملک میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے اور ایکسپورٹ کے ذریعے کثیر زرمبادلہ کماکر دیتا ہے لیکن پاکستان کا صنعتی شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور سینکڑوںصنعتی یونٹس ،جن میں بڑے، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں شامل ہیں، بند ہورہے ہیں جس سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایکسپورٹس میں کمی کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے جس سے پیداواری لاگت میں ریکارڈ اضافے سے عالمی منڈی میں ہماری مقابلاتی سکت بری طرح متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بڑے درجے کی صنعتوں کی پیداوار میں کمی سے بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں ریکارڈ 74 فیصد کمی ہوئی ہے جو گزشتہ سال کے پہلے 9مہینوں میں 1036ارب روپے سے کم ہوکر رواں مالی سال 266 ارب روپے رہ گئے ہیں۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق بڑے درجے کی صنعتوں میں مسلسل ساتویں مہینے گزشتہ سال کے مقابلے میں 15فیصد اور اس سال 10فیصد کمی ہوئی ہے جس کی وجہ ٹیکسٹائل اور ایکسپورٹ صنعتوں کو رعایتی نرخوں پر ملنے والی گیس اور بجلی کی سبسڈی کا خاتمہ، خام مال کی امپورٹ LCs کھلنے میں مشکلات سے سپلائی چین متاثر ہونا، ڈالر کی قدر میں گزشتہ ایک سال میں 58.5فیصد اضافے، 12اپریل 2022 میں 181روپے سے بڑھ کر 4 اپریل 2023 کو 288 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے، امپورٹ لاگت اور بینکوں کے شرح سود 23 سے 24 فیصد ہونے سے مالی لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے پاکستان کے صنعتی شعبے کی کمر توڑ دی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق رواں سال جنوری میں ملک کی بڑے درجے کی صنعتوں کے 19شعبوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے جس میں ٹیکسٹائل صنعت میں 14.2 فیصد، یارن اور کپڑے کی صنعت میں 18 فیصد، آٹو سیکٹر میں 7فیصد، اسٹیل کی پیداوار میں 9فیصد، کیمیکل مصنوعات میں 8فیصد، فارماسیوٹیکل میں 24فیصد اور ربڑ کی مصنوعات میں 8فیصد کمی شامل ہے اور صنعتوں کی پیداوار میں کمی کا رجحان رواں مالی سال بھی واضح نظر آتا ہے جس میں بڑے درجے کی صنعتوں کی پیداوار میں کمی قابل ذکر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 6مہینوں میں گاڑیوں کی صنعت کی پیداوار میں 36فیصد، ٹیکسٹائل کی صنعت میں 21فیصد، فارماسیوٹیکل میں 13فیصد، اسٹیل کی صنعت میں 8فیصد اور کیمیکل کی صنعت میں 4 فیصد کمی ہوئی ہے جس سے بیروزگاری میں مسلسل اضافہ اور ملکی ایکسپورٹس میں ایسے موقع پر کمی ہورہی ہے جب ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے ہمیں ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ ان حالات میں ملک میں افراط زر یعنی مہنگائی (CPI) 31.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ صنعتوں کے بند ہونے سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے اور سیاسی عدم استحکام ملک کو ایک سنگین معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے جبکہ IMF پروگرام دوست ممالک سعودی عرب، یو اے ای اور چین کی جانب سے مالی امداد میں تاخیر کی وجہ سے رکا ہوا ہے جس سے ملک میں شدید بے یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ 2019-20 ء میں پاکستان کے بڑے درجے کی صنعتوں میں گاڑیوں کی پیداوار 96455یونٹس تھی، پاکستان دنیا میں موٹر سائیکل بنانے والا پانچواں بڑا ملک بن چکا تھا جو سالانہ 1.8ملین موٹر سائیکلیں تیار کررہا تھا، پاکستان خطے میں بھارت، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو 4.5میٹرک ٹن سیمنٹ ایکسپورٹ کرکے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا تھا۔ اسی طرح فرٹیلائزر اور انرجی سیکٹر کی پیداوار قابل ذکر تھی لیکن آج ہماری بڑے درجے کی صنعتیں (LSM) اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف گوہر اعجاز نے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک SOS بھیجا ہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ایک وفد کے ساتھ ملاقات بھی کی ہے جس میں بتایا گیا کہ فیصل آباد اور دیگر ٹیکسٹائل کے مراکز ٹیکسٹائل قبرستان بن چکے ہیں اور ٹیکسٹائل صنعت بمشکل 50فیصد پیداواری گنجائش پر کام کررہی ہے جس سے ہر مہینے ایک ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کمی کا خدشہ ہے۔ اپٹما نے بتایا کہ گزشتہ سیلاب سے کپاس کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس سال 8.8ملین بیلز کے مقابلے میں بمشکل 5 ملین بیلز کپاس کی فصل ہوئی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کم از کم3 سے 4 ملین بیلز کپاس کی ضرورت ہے لیکن بھارت سے تجارت پر پابندی کی وجہ سے واہگہ بارڈر کے ذریعے کاٹن امپورٹ نہیں کی جاسکتی جبکہ ملک میں زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے کپاس کی امپورٹ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو FBR کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے بھی ٹیکسٹائل صنعت مالی مشکلات کا شکار ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو مزید فیکٹریوں کے بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے بینکوں کے ڈیفالٹ میں اضافہ ہو گا۔ اپٹما نے صنعتوں کے بینکوں سے یکم جولائی 2022سے 30جون 2023تک ادائیگیوں کو موخر کرنے کی درخواست بھی کی ہے ۔ قارئین! یہ مسئلہ صرف ٹیکسٹائل صنعت کا نہیں بلکہ پاکستان کی دیگر بڑے درجے کی صنعتیں بھی بحران کا شکار ہیں ، ان کی پیداواری صلاحیت میں مسلسل کمی آرہی ہے اور وہ بند ہورہی ہیں ۔ ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی موٹرز کراچی میں بار بار اپنی پیداواری لائن بند کررہے ہیں جس سے ملک میں ریکارڈ مہنگائی کے دور میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ صنعت کو بند ہونے سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بزنس کمیونٹی کے ساتھ ایک ٹاسک فورس بناکر فوری اقدامات کرے تاکہ بڑے درجے کی صنعتوں کو بحران سے نکالا جاسکے ۔

تازہ ترین