چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو خط لکھ دیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے خط میں کہا کہ یکم مارچ اور چار اپریل کے عدالتی فیصلوں نے الیکشن کمیشن کو آئینی اختیار سے محروم کردیا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن واحد فیصلہ کرنے والا ہے کہ حالات الیکشن کےلیے سازگار ہیں یا نہیں، صدر کا الیکشن کی تاریخ دینا آئین کے منافی ہے۔
سکندر سلطان راجا کے خط میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار کسی اتھارٹی کے ماتحت نہیں، یکم مارچ اور 4 اپریل کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو آئینی اختیار سے محروم کیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ الیکشن کمیشن نےصاف شفاف انتخابات انعقاد کےلیےکوشش کی۔
خط میں کہا گیا کہ ان مثالی کوششوں کی معاونت نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی رٹ کو منظم طریقے سے چیلنج کیا گیا، عملی طور پر الیکشن کمیشن کے اختیار کو ختم کیا گیا ہے۔
خط میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ الیکشن دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی، جس کے بعد محکمانہ کارروائی کو ایک طرف رکھ دیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے خط میں موقف اختیار کیا کہ انتظامی افسران کو پیغام گیا کہ وہ سنگین بے ضابطگی کے باجود فیصلوں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کی رٹ پر بری طرح سمجھوتا کیا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے توہین پر نوٹسز جاری کیے تو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی، ہمیں اور ہمارے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے خط میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو کہا گیا کہ ان کیسز میں فیصلہ نہ کیا جائے، توہین کے مرتکب افراد نے الیکشن کمیشن کی کمزور ہوتی رٹ کو بھانپ لیا اور کارروائی میں پیش نہ ہوئے، توہین کے مرتکب افراد کے قابل ضمانت وارنٹ کو معطل کیا گیا۔
خط میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتی دباؤ کے بہت سے واقعات ہیں، جہاں الیکشن کمیشن کی رٹ کو مجروح کیا گیا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے ماحول میں الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کراسکتا ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں مزید کہا کہ کیا انتظامیہ، سیاسی نمائندے اور ادارے کمیشن کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا موجودہ حالات میں ان اداروں اور انتظامیہ کے ذریعے پنجاب، خیبر پختونخوا میں صاف شفاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں؟