• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

صدر فاروق لغاری نے 58(2)B کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرکے بینظیر بھٹو کو معزول کردیا تو ملک معراج خالد نے نگراں وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھا لیا۔ نگراں وزیراعظم کے حلف اٹھانے سے پہلے 5نومبر کی صبح جسٹس سجاد علی شاہ ایوان صدر پہنچے،آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت وہاں پہلے سے موجود تھے ۔ صدر فاروق لغاری نے ان دونوں کو بریفنگ دی کہ حکومت کو رخصت کرنا کیوں ضروری تھا۔

اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے 11نومبر کو صدارتی اقدام کو چیلنج کیا جبکہ بینظیر بھٹو کی طرف سے 13نومبر کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ۔جسٹس سجاد علی شاہ جو نوازشریف کی حکومت بحال کئے جانے پرلکھے گئے اختلافی نوٹ میں علاقائی تعصب کا اظہار کرتے ہوئے یہ جملہ تحریر کرکے ہیرو بن گئے کہ دو سندھی وزرائے اعظم تو 58(2)Bکے مذبح خانے میں قربان کر دیئے گئے مگر جب پنجابی وزیراعظم کی باری آئی تو پانسہ پلٹ دیا گیا ،اب سندھی وزیراعظم کی پٹیشن پر خود کیسے پانسہ پلٹ گئے ،یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔پہلے تو رجسٹرار آفس نے بینظیر کی درخواست اعتراضات لگا کر واپس کردی۔بینظیر نے اعتراضات دور کرکے 21نومبر کو پٹیشن دوبارہ فائل کی تو نئے اعتراضات لگا کر ایک بار پھر واپس کردی گئی۔ 23نومبرکو بینظیر بھٹو کی طرف سے درخواست دوبارہ دائرکی گئی اور 27نومبر کو اعتزاز احسن نے جلد سماعت شروع کرنے کے لئے خط لکھا۔ اس دوران دسمبر کامہینہ ختم ہونے کو آیا تو جج صاحبان موسم سرما کی تعطیلات پر چلے گئے۔ 7جنوری کو ایک بار پھر آٹھویں ترمیم پر سماعت شروع ہوگئی۔12جنوری کو آٹھویں ترمیم پر سپریم کورٹ نے مہر تصدیق ثبت کر دی تو تب کہیں جا کر بینظیر کی پٹیشن پر سماعت کا آغاز ہوا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک اور زیادتی یہ کی کہ بینظیر بھٹو کے وکیل اعتزاز احسن کی درخواست کے باوجود فل کورٹ بنچ تشکیل نہ دیا حالانکہ اس سے پہلے وزیراعظم جونیجو کا کیس سننے کے لئے جسٹس حلیم نے فل کورٹ بنچ بنایا ،بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کئےجانے پر جسٹس افضل ظلہ نے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا اور نوازشریف کی پہلی حکومت ختم کئے جانے کے خلاف دائر درخواستوں پر بھی جسٹس نسیم حسن شاہ نے فل کورٹ بنچ بنایا مگر جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنی سربراہی میں بنائے گئے سات رُکنی بنچ کیساتھ ہی اس مقدمے کی سماعت جاری رکھی۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والا بنچ جس سے جسٹس اجمل میاں ، سعید الزماں صدیقی اور ناصر اسلم زاہد جیسے سینئر ججوں کو باہر رکھا گیا ،اس نے 29جنوری 1997ء کو ایک کے مقابلے میں6کی اکثریت سے صدارتی اقدام کو درست قرار دیدیا اور بینظیر بھٹو کی پٹیشن خارج کردی گئی۔جسٹس ضیا محمود مرزا وہ واحد جج تھے جنہو ںنے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔29جنوری کو یہ فیصلہ آیا اور 4دن بعد انتخابات تھے ،تاخیر سے دیئے گئے اس عدالتی فیصلے نے بھی پیپلز پارٹی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔صدر فاروق لغاری ،نگراں وزیراعظم معراج خالد اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان یہ کھچڑی بھی پکتی رہی کہ انتخابات سے پہلے احتساب کرنے کے لئے نگراں حکومت کا دورانیہ دو سال تک بڑھا دیا جائے ۔جسٹس سجاد علی شاہ کی کتاب ’’Law courts in a glass house‘‘کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ ریفرنڈم کروایا جائے اور اگر لوگوں کی اکثریت متفق ہو پھر 90دن کا دورانیہ بڑھا دیا جائے مگر صدر اور نگراں وزیراعظم نہ مانے۔ سرتاج عزیز کی کتاب ’’Between Dreams and Realities‘‘کے مطابق غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے ،نگراں حکومت کی طرف سے غیر ملکی قرضے لینے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں اس لئے صدر لغاری نے 90دن کے اندر الیکشن کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ وجہ چاہے جو بھی ہو ،جسٹس سجادعلی شاہ نے خاکے میں رنگ بھرنے کی ہرممکن کوشش کی ۔ انتخابات ہونے کے بعد بھی سجاد علی شاہ ملک معراج خالد کو یہ پیشکش کرتے دکھائی دیئے کہ ٹرن آئوٹ کم ہونے کے باعث انتخابات کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔3فروری 1997ء کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے میدان مار لیا تو بینظیر بھٹو نے’’گڈ لک نوازشریف‘‘کہتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا ۔یوں 17فروری 1997ء کو نوازشریف نے دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد حلف اُٹھا لیا۔

ضیا الحق کی طرف سے آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم جس کی شق 58(2)Bکے تحت صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ،سپریم کورٹ انتخابات سے پہلے اس پر مہر تصدیق ثبت کر چکی تھی اور جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ نے مختصر حکم نامے کے ذریعے محمود خان اچکزئی کی آٹھویں ترمیم کے خلاف پٹیشن خارج کردی تھی مگر تفصیلی فیصلہ آنا باقی تھا۔نوازشریف نے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی صدر فاروق لغاری ،قائد حزب اختلاف بینظیر بھٹو اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو اعتماد میں لے کر 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58(2)Bختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔یکم اپریل کو یہ بل اسمبلی سے منظور ہوا ،3اپریل کو صدر فاروق لغاری نے اس پر دستخط کئے اور 4اپریل کو جب سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آیا جس میں 58(2)Bکی فضیلت بیان کی گئی تھی ،تب تک ڈکٹیٹر کے تراشے ہوئے کالے قانون کا وجود ختم ہوچکا تھا۔(جاری ہے)

تازہ ترین