• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں ہمارے وفاقی دارالحکومت میں آئین کی پچاسویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی ہے جو اپنی پارٹی قیادت کا یہ کارنامہ بطور فخر پیش کرتی ہے کہ اس نے پارلیمنٹ سے یہ آئین منظور کروانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ ان دنوں ن لیگ کی قیادت میں جو اتحادی حکومت قائم ہے یہ اُس کی مجبوری بھی ہے کہ وہ اپنے تمام اتحادیوں کے نخرے اُٹھاتے ہوئے انہیں خوش رکھے۔ بالخصوص شہبازی نظریہ ہی یہ ہے کہ ہر طاقتور کے پاؤں پکڑے رکھے جائیں ۔گولڈن جوبلی میں جوش کی دوسری وجہ ہماری موجودہ اتحادی حکومت کی سپریم جوڈیشری میں براجمان ایک بڑے جج صاحب سے جاری ان کی آئینی ٹسل ہے۔ ظاہر ہے دونوں کی اپنی سوچیں ترجیحات یا مفادات ہیں یا جو بھی نام دیا جائے حقائق سے انکار نہیں ہر دو اطراف خود کو آئین کا زیادہ سے زیادہ سگا یا پُتلا منوانے کی کاوشیں زوروں پر ہیں۔ حالانکہ دونوں ہی کتنے سگے ہیں ماضی کے جھروکوں سے آئینہ دکھایا جاسکتا ہے۔ اگر آئین کی پاسداری میں بعض مواقع پر کمزوری انتظامیہ نے بھی دکھائی ہے تو دوسری طرف اس کی رکھوالی یا چوکیداری کے دعویداروں نے تو اخیر کئےرکھی ہے۔ پہلے تو ماشاء اللّٰہ لیگی قیادت نے ملک قائم ہونے کے بعد آئین سازی کی طرف کماحقہ دھیان نہیں دیا بلکہ سچائی اس سے بھی سخت ہے کہ ابتدائی برسوں میں کہیں کوئی گرمجوشی دکھائی نہیں دیتی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ مختلف یا متضاد الخیال لوگوں کو مصنوعی طور پر جوڑتے ہوئے جس طرح اپنی مصنوعی عوامی طاقت دکھائی گئی تھی ایسی کسی بھی کاوش میں اس کا بھرم ٹوٹ جانا تھا۔ سو انگریز کے دیے 1935 کے ایکٹ سے کام چلایا جاتا رہا۔

رودھو کر 56ء میں جیسا تیسا آئین دیا گیا لیکن ابھی اس کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسے میجر جنرل اسکندر مرزا نے بالخصوص ایوبی بوٹوں تلے روند دیا اور پھر آمرانہ ذہنیت کے ساتھ 62ء میں جس نوع کا گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا قوم بالخصوص قومیتی اکائیوں نے اس صدارتی آمریت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انہی تلخیوں اور مفادپرستیوں میں بالآخر یہ ملک ہی دو لخت ہوگیا۔ ملک ٹوٹنے کے بعد اصولی طور پر چاہئے تو یہ تھا کہ جس طرح شیخ مجیب صاحب اور ان کی عوامی لیگ نے 70ء کے مینڈیٹ کو مسلط کرنے کی بجائے عوام کے حضور پیش ہوتے ہوئے تازہ مینڈیٹ ضروری خیال کیا اس اعتماد کے بعد اپنی قوم کو آئین دیا جبکہ بچے کھچے پاکستان میں حسب معمول اس کی ضرورت کو چنداں اہم خیال نہ کیا گیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ شیخ صاحب اور عوامی لیگ کو بنگالی عوام کے ساتھ اپنے حقیقی تعلق و قربت کا ادراک تھا جبکہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد دوسری طرف عوامی غم و غصے کا اس قدر خوف تھا کہ متحدہ پاکستان میں بوجوہ لی گئی سیٹوں کے چھن جانے کا خدشہ یا اندیشہ تھا۔ ولی خاں ،مفتی محمود، بزنجواوراچکزئی صاحب جیسے چند قول پرست لیڈران نے اس نوع کی آواز اُٹھائی بھی تھی مگر تب کے الیکشن میں جو لوگ اقلیتی حیثیت میں آئے تھے اب پاکستان ٹوٹنے کی برکت سے وہ اکثریتی بن چکے تھے سو وہ ایسا کوئی رسک لینے کا کیسے سوچ سکتے تھے؟ یہ اسی مفاد پرستانہ سوچ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے جیت کے بغیر ہی پہلے تین سال مفتے یا جھونگے میں اقتدار کے مزے لوٹے اور پھر دس اپریل کو بھی کھینچ کر 14اگست تک لے گئے یوں اپنے لئے ایک نئی پانچ سالہ ٹرم کا اہتمام کرلیا۔ یہاں برے طریقے سے یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا پارلیمنٹ یہ اتھارٹی رکھتی ہے کہ وہ سپریم جوڈیشری کے لئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پاس کرسکے؟

ایک پارٹی کا ملازم کنگ اگر پارلیمنٹ کا پاس کردہ مسودہ واپس بھیجتا ہے تو وہ شادیانے بجاتے ہیں۔ بھائی سمجھنے کی کوشش کرو پارلیمنٹ آئین کی خالق ہے اور سپریم جوڈیشری آئین کی تخلیق ہے، ذرا خالق اور مخلوق کے فرق کو ماپو، آئین کسی چوکیدار یا حفاظت پر مامور فرد یا ادارے کو ایک لفظ یا کوما بدلنے کی بھی اجازت نہیں دیتا جبکہ پارلیمنٹ پورے آئین کو لپیٹ کر نیا آئین دینے کی اتھارٹی رکھتی ہے۔ درویش کی ایک مرتبہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنے کی پارلیمانی اتھارٹی کے حوالے سے بھرپور بحث ہوئی تھی اور یہ منوا کر اُٹھا تھا کہ اصولی طور پر مردہ لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ زندوں پر حکومت کریں۔ ایک نسل کی نمائندگی کرنے والے جو بھی ڈھانچہ تشکیل دے گئے نئی نسلوں کے نمائندوں کا یہ حق ہے کہ وہ اسے جوہری طور پر بدل ڈالیں۔ سوائے بنیادی انسانی حقوق کے، اس لئے کہ یہ براہِ راست صرف اور صرف عوام کے لئے مختص ہوتے ہیں۔ دوسرے یو این ہیومن رائٹس چارٹر پر بحیثیت ممبر ریاست دستخط کرتے ہوئے ہر قوم نے اقوام عالم کے سامنے یہ عہد کیا ہوتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی ہمیشہ پاسداری کرے گی یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس ملک کے خلاف عالمی پابندیاں لاگو کی جاسکتی ہیں۔ باقی تھیوری اینڈ پریکٹیشن میں تفاوت ہمیشہ رہا ہے۔ جسے پاٹنے کے لئے انسانی شعور آگے کو رواں دواں ہے۔ ہمارے یہاں شعور و آگہی کی کمی کا یہ نتیجہ ہے کہ غیر منتخب پبلک سرونٹ منتخب وزرائے اعظموں کو بیک جنبش کان سے پکڑ کر گھر بھیج دیتے ہیں۔ مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے آئین کا دن منانے والے پارلیمنٹ کی عظمت و بالادستی کا دن یعنی ”یوم جمہوریہ“ منائیں اور اس کو یہی نام دیں سب کو یہ سمجھائیں کہ خالق کا احترام تخلیق سے اور ماں کا احترام بچے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

تازہ ترین