• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے کیوں بطور قوم ہم نے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے کو اپنے مسائل کے حل کا سب سے آسان طریقہ سمجھ رکھا ہے۔آپ سب بھی اپنے اطراف نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے معاشرے میں ہاتھ پھیلانے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے بلاشبہ قوم کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کرنے کے قصور وار نااہل حکمراں ہی ہیں جنھوں نے ملک کی معیشت کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ محنت و مزدوری کرکے عام آدمی عزت کے ساتھ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے ،صرف عوام کی بات کیا کریں ہماری حکومتیں بھی ملک کی تباہ حال معیشت کو تباہی سے بچانےکیلئےہی کبھی امریکہ ،یورپ تو کبھی جاپان ، سعودی عرب ، یو اے ای اور قطر جیسے امیر ممالک کے آگے ہاتھ پھیلاتی نظر آتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم کو ایک مانگنے والی قوم سمجھا جانے لگا ہے،دنیا میں ہماری سنوائی بھی کم ہوچکی ہے کیونکہ غریب چاہے جتنا بھی عقلمند ہو سنی ہمیشہ پیسے والے کی ہی جاتی ہے ، بھارت کی ہی مثال لے لیں جس نے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے ، اقوام متحدہ کی قراردادیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ بھارت غاصب ہے ، ظالم ہے ، لیکن طاقت ور معیشت رکھنے کے سبب دنیا کے حکمراں بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو ہی دہشت گرد کہتے ہیں۔ بہرحال اس وقت ہمیشہ کی طرح پاکستان ایک بار پھر سخت معاشی بحران میں مبتلا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ہم صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور آئی ایم ایف ہمیں کبھی ملک میں تیل مہنگا کرنے کا کہتا ہے تو کبھی آٹا مہنگا کرنے کا، بجلی تو پہلے ہی اتنی مہنگی کرواچکا ہے کہ غریب آدمی اگر چوبیس گھنٹے پنکھا ہی چلا لے تو پوری تنخواہ بجلی کے بل میں چلی جائے ، صرف اتنا ہی نہیں آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر کی قسط کیلئے کبھی سعودی عرب سے گارنٹی لیٹر منگواتا ہے تو کبھی عرب امارات سے اور پاکستان بے چارہ سب کے سامنے باری باری ہاتھ پھیلائے نظر آتا ہے ۔ تذلیل کی انتہا ہوچکی ہے ، لیکن ہمارے حکمراں اب بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بجائے بھیک مانگ کر ہی ملک کو بحران سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ، یہاں ہم حکمرانوں کو اوورسیز پاکستانیوں کو استعمال کرکے ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے کی چند اہم اور آسان تجاویز پیش کرنا چاہیں گے یقین جانیے کہ دنیا بھر میں مقیم ایک کروڑسے زائد اوورسیزپاکستانی اپنے ملک سے بہت محبت کرتےہیں اور پاکستان کو ہر روز آئی ایم ایف کے قدموں میں بیٹھا دیکھ کر ہر اوورسیز پاکستانی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے ۔ اس وقت یہ اوورسیز پاکستانی سالانہ پاکستان کو تیس سے بتیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیجتےہیں اگر ان پاکستانیوں کو تھوڑی سے سہولتیں دی جائیں تو پاکستان باآسانی ان پاکستانیوں سے مزید دس ارب ڈالر حاصل کرسکتا ہے ۔مثلاََحکومت اسلام آباد کے بہترین علاقے میں دو کنال کے دس ہزار بہترین پلاٹس تیار کرے جس کی فی پلاٹ قیمت ایک لاکھ ڈالر مقرر کردے ، آپ یقین کریں یہ دس ہزار پلاٹ ایک ماہ میں فروخت ہوجائیں گے اور حکومت کو ایک ارب ڈالر حاصل ہوجائیں گے۔کیونکہ اوورسیز پاکستانی پاکستان میں اپنی رقم سب سے محفوظ رئیل اسٹیٹ میں ہی تصور کرتے ہیں لہٰذا ملک کی خاطر یہ دس ہزار پلاٹ ہفتوں میں فروخت ہوجائیں گے ، پھر حکومت پاکستان کے دس بڑے شہروں میں ایسی ہی اسکیمیں شروع کرےتو دس ارب ڈالر تین ماہ میں جمع کرنا کوئی مشکل کام نہیں ،اس طرح حکومت ہر اوورسیز پاکستانی جو ڈالر میں پاکستان پیسہ بھیجے ، اسے ہر ڈالر کے بدلے سرکاری ریٹ پر ایک روپیہ اضافی ادا کرے تواس سے بھی لوگوں میں زیادہ سے زیادہ ڈالر بھیجنے کی ترغیب پیدا ہوگی۔ نیزحکومت اوورسیز پاکستانیوںکو اپنی رقم سے گاڑی لانے اور ڈالر میں ڈیوٹی ادا کرنے کی شرط پر وہ گاڑیاں جو پاکستان میں تیار نہیںہوتیں جیسے ہائبرڈ اوربجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دےاس سے بھی ملک میں ڈالروں کا انبار لگ جائے گا ۔ یقین جانیے ان تجاویز پر عمل کرنے سے ایک سال میں دس ارب ڈالر ملک میں اضافی آئیںگےلیکن یہ تینوں کام محنت کرنے سے ہونگے فیصلہ ریاست کو کرنا ہے کہ کشکول لے کر بھیک مانگنی ہے یا محنت کرکے سرا ٹھا کر دنیا میں آگے بڑھنا ہے؟

تازہ ترین