(گزشتہ سے پیوستہ )
کیا دلچسپ حقیقت ہے کہ وی اے وی کالج ایک بہت اونچے ٹیلے پر تھا یا یوں سمجھ لیں یہ سارا علاقہ ایک اونچا ٹیلہ تھا۔اس کا ثبوت کچھ یوں بھی ہے کہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز (ڈی اے وی کالج)کے سامنے ڈی آئی جی آپریشنر لاہور (کبھی یہ ایس ایس پی لاہور کا دفتر تھا)اور اس کےپیچھے ایک اونچا ٹیلہ ہے جو یقیناً زمین سے تقریباً 70فٹ بلند ہے یا اس سے بھی زیادہ اس پر وہ حجرہ آج بھی موجود ہے جہاں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒعبادت کیا کرتے تھے پھر وہاں سے مختلف روایات کے مطابق گھٹنوں کے بل حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار مبارک پر آیا کرتے تھے ۔ہمیں یاد ہے پرانے لاہوریئے ہر جمعرات کو پہلے بابا فرید الدین گنج شکرؒکے ٹبہ پر جاکر سلام کرتے تھے پھر حضرت علی ہجویری ؒکے مزار مبارک پر سلام کرتے تھے اور پھر قریب حضرت پیر مکی ؒکے مزار مبارک پر سلام کرکے اپنے اپنے کاموں پر جاتے تھے ۔اب بھی یہ روایت ہے یا نہیں اس کے بارے میں ہم ضرور تحقیق کریں گے۔ گورنمنٹ کالج لاہور، ضلع کچہری، میو اسپتال ، شاہی قلعہ،بھاٹی گیٹ اور شہر کے اندر کئی گلیاں سڑک سے خاصی اونچائی پر ہیں۔ لاہور بڑا کمال کا شہر ہے ہم اندرون شہر چلے جائیں ہر دوسری،تیسری گلی ،محلہ، کوچہ اور بازار میں آپ کو کسی نہ کسی نیک ہستی کا مزار مبارک ضرور مل جائے گا۔
ہمارے بڑے بوڑھے بتایا کرتےتھے لاہور میں ایک منادی والا ہوتا تھا اس کے ہاتھ میں گھنٹی بعض منادی کرنے والوں کے پاس ڈھول اور گھنٹی دونوں ہوا کرتے تھے وہ اکثر یہ الفاظ بولا کرتا تھا ؎
سجنو! ایہہ لاہور اے
ست دن تے اٹھ میلے
گھر جاواں کیڑے ویلے
یعنی اس شہر میں ہر وقت اور ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے میں ان کھیل تماشوں، عرس، میلوں اور مختلف تقریبات کی وجہ سے گھر کب جائوں ۔
خیر ہم نے اپنے بچپن میں لاہورمیں مختلف دنگلوں اور فلموں کے بارے میں ،کسی نئی دکان کے کھلنے اور مختلف ادویات فروخت کرنے پر ڈھول پر منادی کرنے والے کو تو اکثر دیکھاہے ۔یہ بھی لاہور کی ایک زندہ روایت رہی ہے کہ ہر مزار پر عرس بڑی باقاعدگی سے ہوتا ہے اور کوئی بھی عرس بھنڈارہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔موت کا کنواں، آسمانی جھولا، بندراورریچھ کا تماشا اس قسم کے کئی کھیل تماشے لاہور میں پورا سال ہوتے رہتے ہیں ہم بھی بات کرتے کرتے پتہ نہیں کدھر سے کدھر چلے جاتے ہیں ،آتے ہیں اپنے پچھلے ہفتے والے کالم کی طرف اور بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔
اگر آپ غور کریں تو گورنمنٹ کالج لاہور، ضلع کچہری اور بابا فرید کا ٹبہ یہ سڑک سے کافی اونچے ہیں اسلامیہ کالج سول لائنز والی جگہ پر بھی پہلے کبھی ایک ٹیلہ رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی دوسری بیوی راج کور (مہاراجہ کھڑک سنگھ کی والدہ )دلچسپ بات یہ ہے کہ رنجیت سنگھ کی والدہ کا نام بھی راج کور تھا چنانچہ رنجیت سنگھ نے اپنی بیوی کا نام نگائن کور کر دیا اور پیار سے مائی نگین کہتا تھا نگائن کور کا تعلق پتوکی کے نکئی سرداروں سے ہے کہتے ہیں کہ یہ اتنی خوبصورت تھی کہ جب کوئی بھی اس کو دیکھتا تو دانتوں تلے اپنی زبان کاٹ لیتا تھا اس وجہ سے اس کو داشن کور (درت کور)بھی کہتے تھے ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اس سے شادی تب ہوئی تھی جب رنجیت سنگھ ابھی مہاراجہ نہیں بنا تھا لیکن شادی کے ایک سال بعد وہ پنجاب کا مہاراجہ بن گیا اور اس کی مہاراجہ کے ساتھ شادی چالیس سال رہی ۔مہاراجہ کا کہنا تھا کہ یہ اس کے لئے بڑی خوش قسمت ہے جب شادی ہوئی تو اس کے ایک سال بعد وہ مہاراجہ بن گیا اور جب نگائن کا انتقال ہوا تو اس کے دو سال بعد اس کی حکومت ختم ہو گئی ۔وہ اس سے حد سے زیادہ پیار کرتا تھا ،مہاراجہ رنجیت سنگھ کا یہ یقین تھا کہ نگائن کی وجہ سے اس کی قسمت چمکی اور اس کے مرنے کے بعد اس کی خوش قسمتی ختم ہو گئی ۔ایک مرتبہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی اس بیوی کے ساتھ (دیونند اینگلو ویوک اسکول بعد میں کالج اور پھر اسلامیہ کالج سول لائنز) والے ٹیلے پر سیر کر رہا تھا موسم بڑا حسیں اور عاشقانہ تھا اچانک مہارانی نگائن نے کہا مہاراجہ اگر میں مر جائوں تو میری ہڈیاں اور راکھ اس جگہ دفن کر دینا اس وقت یہاں شاہی باغ ہوتا تھا جس کی حدود حضرت علی ہجویریؒکے مزار مبارک سے شروع ہو کر چوبرجی سے بھی آگے زیب النساء کے مقبرے تک تھیں ۔یہ وہی با غ تھا جس میں زیب النساءچہل قدمی کیا کرتی تھی اور اس کی فارسی شاعری بڑی کمال کی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوا ہے ۔خیر اس پرپھر بات کریں گے سکھ اس علاقے کو شاہی باغ کہا کرتے تھے کیونکہ رنجیت سنگھ یہاں پر سیر کرنے آتا تھا اور دریا ئے راوی اس کے قریب ہی بہتا تھا کیا دل فریب نظارہ ہوتا ہو گا ارے بابا ہم نے تو لاہور کا حلیہ ہی بگاڑ دیا اب تو ہم اس کے تاریخی، ثقافتی اور تعمیراتی آثار کو بھی ختم کرنے کے در پے ہیں۔
خیر جناب قدرت خدا کی ،اس بات کے دو سال بعد مہارانی نگائن کا شیخوپورہ قلعہ میں انتقال ہوگیا وہیں پر اس کی آخری رسومات ہوئیںالبتہ مہاراجہ رنجیت سنگھ خود اس کی ہڈیاں اور راکھ یہاں لیکر آیااور اپنے سامنے زمین میں دفن کروا کے اپنے سامنے اس کی سمادھی بنوائی تھی ۔اس کالج میں دو اور بھی سمادھیاں ہیں چندرکور، راجہ کھڑک سنگھ کی بیوی اور نونہال سنگھ کی والدہ اور نونہال سنگھ کی اہلیہ کی بھی سمادھی ہے ۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سمادھیوں کی حالت دن بدن خستہ اور خراب ہوتی جا رہی ہے حکومت اور کوئی بھی محکمہ اس کی دیکھ بھال نہیں کر رہا یہ تینوں سمادھیاں زمین سے دس سے پندرہ فٹ بلند ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر کوئی ٹیلہ تھا ۔ (جاری ہے)