• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سپریم کورٹ کی ہدایت پر تاحال وفاقی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو ایک پائی جاری نہیں کی بلکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا ہے۔ اس دوران پارلیمان سے منظور کردہ ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ‘‘منظور کر کے صدر مملکت کو بھجوایا تو انہوں حسب توقع اس پر دستخط کئے بغیر پارلیمان کو واپس بھجوا دیا چونکہ حکومت نےصدر مملکت کی جانب سے بل پر دستخط نہ کئے جانے کے خدشہ کے پیش نظر پہلے سے ہی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کا جاری رکھا ہوا تھا اس لئے اگلے روزپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء‘‘ دوبارہ منظور کر کے صدر کو بھجوا دیا،جو صدر مملکت کی جانب سے دستخط نہ ہونے کی صورت قانون بن جائے گا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو ابھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے’’ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے کیلئے اپنی سربراہی میں 8رکنی بینچ تشکیل دے دیا،اس بینچ نے ابھی سماعت شروع نہیں کی تھی حکومتی حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں۔ ایسادکھائی دیتا ہےکہ مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنے کا وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ سیاست دان پاکستانی قوم کی خاطر ڈائیلاگ کر کے کسی سیاسی نتیجہ پر پہنچ نہیں پائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تاحال عمران خان کو مذاکرات کی باضابطہ دعوت نہیں دی ویسے بھی عمران خان وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں، انہوں نے کہا ہے کہ وہ کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے میرے ساتھ انتخابات کے ایشوپر حکومت سے بات کر سکتی ہے ۔ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا ساری لڑائی مقننہ اور عدلیہ میں لڑی جا رہی ہےوفاقی وزیر خزانہ نے سینیٹر محمد اسحق ڈار نےقومی اسمبلی میں جہاں پنجاب اسمبلی میں انتخابات کرانے کے لئے رقم فراہم کرنے کا بل پیش کر دیا ہے وہاں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سےملک میں ایک ہی روز قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی قرار داد منظور کر والی ۔پی ٹی آئی اس بات پر بضد ہے کہ 90دن کے اندر ہی دو اسمبلیوں کے انتخابات کرانا لازمی امر ہے لیکن اس دوران سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کاجس طرح مذاق اڑیاجاراہا ہےاس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔سپریم کورٹ کے لئے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان میں ’’پارلیمنٹ کی بالا دستی ‘‘ کی لڑائی لڑی جا رہی ہے طویل عرصہ تک ملٹری و سول بیورو کریسی کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی کی نفی کی جاتی رہی کبھی گورنر جنرل کھڑے کھڑے وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیتے رہے کبھی فوجی ڈکٹیٹرکٹھ پتلی وزرائے اعظم کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھجوانے کے لئے آئین میں 58-2Bایجاد کر لی گئی، اس کا خاتمہ ہوا تو منتخب وزرائے اعظم کو عدلیہ کے ذریعے گھر بھجوانے کا کھیل شروع ہو گیا جو تا حال جاری ہے1997ء میں سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا ہم اسے بھلا نہیں سکے ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک منتخب وزیر اعظم کو ناکردہ گناہوں پر معافی مانگنے پر بھی معافی نہ دی تو پھر ان کی چھٹی کرا دی گئی ،چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس حد تک آپے سے باہر ہو گئے کہ پارلیمان کی متفقہ طور پرمنظور کردہ13ویں ترمیم کو ایک پسندیدہ بینچ بنا کر معطل کردیا۔حکومت کی طرف سے فل کورٹ بنانے کے مطالبہ کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے رعونت سے مسترد کر دیا تھا چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جس طرح عدلیہ کی طاقت سے ملک پر حکمرنی کی۔ کل کی بات ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ جو کھیل کھیلاوہ پوری قوم کو یاد ہے اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن یہ کھیل ختم نہیں ہوا ۔آزاد جموں کشمیر میں اس کھیل کا ری پلے دیکھا گیا ہے مسلم لیگی کارکنوں کی سپریم کورٹ میں ہنگامہ آرائی پر سردار نسیم ، اختر رسول اور طارق عزیز سمیت کچھ رہنمائوں نے سزا تو بھگت لی لیکن عمران خان نے پیشی کے موقع پر عدالتوںمیں ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی کر کے جس طرح اپنی مرضی کے فیصلے کروائے ہیں،دور کی بات نہیں ۔گزشتہ سال 10اپریل کو ووٹ کی قوت سے عمران حکومت ختم کر کے شہباز شریف کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو عمران خان نے اس شدت سے اسے ’’امپورٹڈ ‘‘ حکومت ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کی باز گشت واشنگٹن کے ایوانوں تک میں سنی گئی مجبوراً بائیڈن انتظامیہ کو وضاحت کرنا پڑی کہ ان کی حکومت کا عمران خان کی حکومت کے خاتمہ سے کچھ لینا دینا نہیںپھر عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوںنے توپوں کا رخ اپنے محسن جنرل باجوہ کی طرف کر دیا پی ٹی آئی، عمران حکومت ختم ہونے پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نالاں تھی، اب پی ٹی آئی نے 180ڈگری کا یو ٹرن لے لیا ہے جب کہ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے سپریم کورٹ میں بنچوں کی تشکیل میں سینئر ججوں کو بینچوں سے باہر رکھنے پر احتجاج کیا ہے .

پچھلے دنوں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے جذبات پر قابو نہ پاتے ہوئے بھری عدالت میں آبدیدہ ہو گئے اور سب کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے ساتھی جج (مظاہر نقوی) کے ساتھ کھڑے ہیں ،سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ موجودہ آئینی و سیاسی بحران کا کون ذمہ دار ہے ؟ جسٹس شوکت صدیقی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیںتاحال ان کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں کر پائی،اگر سپریم کورٹ سیاسی و آئینی تنازعات پر مخصوص ججوں پر مشتمل بینچ بنانے کی بجائے فل کورٹ بناتی تو اس سے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے کوئی انکا ر کر سکتا بلکہ اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو جس طرح تختہ مشق بنایا گیا اس وقت کسی جج کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئےجسٹس شوکت صدیقی کی اپیل تاحال انصاف کی منتظر ہے !

آئین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ’’سو موٹو ‘‘ کارروائی کا اختیار دیتا ہے لیکن جس بے رحمی سے ماضی میں اس اختیار کا استعمال کیا گیا اس کی عدالتی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔’’ سو موٹو ‘‘ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ کسی عدالت یا اتھارٹی کی طرف سے کسی فریق کی درخواست کے بغیر کسی معاملہ کا از خود نوٹس لینا ہے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تو نواز شریف کے مخالفین کو بلا بلا کر ’’انصاف ‘‘ دینے کا پیغام دیا کرتے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے لے کر اب تک سپریم کورٹ 204از خود نوٹس لے چکی ہے۔ ایک چیف جسٹس نے 79 کے قریب سو موٹو نوٹس لئے جب کہ لاکھوں کی تعداد میںمقدمات زیر التوا ہیں،موجودہ حکومت نے سو موٹو کے بے رحمانہ استعمال کو روکنے کے لئے ایک قانون بنایا ہے جس پر صدر مملکت کے دستخط ہونے یا نہ ہونے سے قبل ہی ہنگامی بنیادوں پر قائم 8رکنی لارجر بینچ نے عمل درآمد روک دیا ہے، پارلیمان اور سپریم کورٹ کےدرمیان اختیارات کی جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے اس بات کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا۔

تازہ ترین